ممتاز اطہر

لہو میں اپنی مٹی کا اثر تقسیم ہوتا ہے
زمیں تقسیم ہونے سے بشر تقسیم ہوتا ہے

میّسر ہے سکونت اُس مدینے کی، جہاں اکثر
اندھیرا بھی خدا کے نام پر تقسیم ہوتا ہے

پرندے چہچہانا بھولتے جاتے ہیں اُس ڈر سے
ہواؤں میں جو نا معلوم ڈر تقسیم ہوتا ہے

یوں اپنے بھائیوں کے درمیاں سہما سا رہتا ہوں
میں کوئی بات کرتا ہوں تو گھر تقسیم ہوتا ہے

جُدا ہوں تو فقط آنگن میں دیواریں نہیں اٹھتیں
جو سینچا تھا مری ماں نے، شجر تقسیم ہوتا ہے

شجر تقسیم ہونے سے فقط سایہ نہیں کٹتا
رُتیں تقسیم ہوتی ہیں، ثمر تقسیم ہوتا ہے

کہاں ہے وہ اکائی سی، جو پس منظر میں ہوتی تھی
جو منظر ہے مرے پیشِ نظر، تقسیم ہوتا ہے

اُسی کے سامنے دامن کُشا رہتا ہوں صدیوں سے
وہ جس کے اِذن سے اطہر ہنر تقسیم ہوتا ہے

Related posts

Leave a Comment