فرشتہ پھر نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہین عباس

فرشتہ پھر نہیں آیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی بس ایک بارآیا تھا اپنے کام پر
اور کام بھی کیا تھا
یہی برّ اق بندوں کو خبر نامہ سنانا
نور کا خاکہ اڑانا
فرش پر سے مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر
پھر پٹخ دینا زمیں پر
یوں نشانہ باز حکموں کو بجا لانا

کہ جیسے نیزہ باز آیا ہو مشقوں سے گزر کر
اِس دہانے پر کہ سب سیر و شکار
!آساں کیے جائیں 
الف اَحرام ہو یا لام لنگی ہو
یا اَبجد سے کوئی باہر ہو مونس ستر کا
…ہمدرد‘ دونوں شرم گاہوں کا
شکاری کا حرم میں داخلہ
دستور کا گر
کیسا کیسا سُر تھا اُس کی ُپھونکنی میں
وہ دہانے سے گزر آیا تھا اور ہم
ٹھیک اُس کی سیدھ میں پائے گئے تھے
:بابِ استقبالیہ پر ٹھیک ٹھہرائے گئے تھے
،آیئے صاحب
یہ کن پہلو دراز آبادیوں میں
پشت پر شہپرکا شدھ جھلنا جمائے
،پنکھی جھلنے آ گئے ہو
ذرا گردن کے ہلکورے اِدھر لائو
جہاں ہم ہیں
نظر کی چورسی چھب سے ،یہاں انگنائی میں

،گولائی میں دیکھو
اِدھر گہرائی میں جھانکو
،پسینہ زیر جاموں پر ہے
!اَحراموں پہ کب ہے
یہ تلووں کی لڑی ، نعلین کی جوڑی
سے ملوانے چلے ہو
پنجہ ٔ پا دیکھتے ہو ؟
!اِیڑیوں کے اِس گزشت و َرفت سے گزرو

گرائو مت ہمارے پائے جانے
اور چھپائے جانے کا کچرا
ہم ایسے اَن پڑھوں کے
حا ضر و غائب نہیںہوتے
کہ ہم تشکیک اور تائید کی دو تجربہ گاہیں بنیں
دن بھرجو لٹمس، ٹیسٹ کی َنوروز‘ نیلی بار
،پر ٹپ ٹپ ِگریں
سرخی کو چھلکائیں تو سمجھیں تجربہ اچھا رہا
اَیسا نہیں ہوتا
یہ دونوں َپر سمیٹو ‘ باری باری سب کے گھر آئو
سبھی کو جانتے جائو
عبائوں کا یہ گولا‘ یاں نہیں چلتا نقاب الٹو
ہمارے ساتھ تم پہلو درازی‘ راست بازی
کے شگوفے چھوڑنے
،پھل توڑنے نکلو
خدارا… آئو،آئو
!!زندہ ہو جائو

Related posts

Leave a Comment