شدتِ غم سے نکھر جائیں گے ہم
تم یہ سمجھے ہو، بکھر جائیں گے ہم
گفتگو ہو گی در و دیوار سے
شب گئے جب اپنے گھر جائیں گے ہم
آپ پھر آئیں گے کیا سورج لیے
جب اندھیروں میں اتر جائیں گے ہم
بارہا چوما فرازِ دار کو
کون کہتا ہے کہ ڈر جائیں گے ہم
جسم سے اک دن نکل جائے گی جان
پھر کہیں یہ بوجھ دھر جائیں گے ہم
اپنے دل کی بات دل میں ہی لیے
کربِ ہستی سے گزر جائیں گے ہم
Related posts
-
عنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی
میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی... -
احمد جلیل ۔۔۔ دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو
دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا... -
مسعود احمد ۔۔۔ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں
ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں یہ کیسے دن ہمارے پھر رہے ہیں کسی سے...