رخشندہ نوید ۔۔۔ رات کی رات

رات کی رات
۔۔۔۔۔۔۔
شام اُتری
بدن پر حسیں لمس کے پھول کِھلنے لگے
قرب کی لو سرہانے سرہانے جلی
خواب گاہوں کے پیچھے
ہواؤں کے پرنرم خوابوں کی آہٹ سے
ملنے لگے
شام اُتری بدن پر حسیں لمس کے پھول کھلنے لگے
دھیرے دھیرے رواں
کاروانِ فلک پر ستاروں کے جھرمٹ میں
ڈوبی ہوئی رات جانے لگی
چاہتوں کی ہوا سرسرانے لگی
بند کمروں میں
کھڑکی کے پردے اُٹھے
ساعتِ سحر نے ادھ کھلی چشم کو
خواب سے جاگنے کا اشارہ دیا
صبح کی بارگاہوں میں ننھی کرن
روشنی روشنی پھڑپھڑانے لگی
رات جانے لگی
گرم پانی کے ٹب میں
محبت کی ابرق بہائی گئی
’’آملیٹ اور بریڈ
چائے دانی میں پانی اُبلنے لگا‘‘
’’میری ٹائی کہاں ہے‘‘
’’اٹھاؤ یہ جوتے انھیں کرکے پالش مرے پاس لاؤ‘‘
’’یہ صورت مرے سامنے سے ہٹاؤ‘‘
اور
چاہت بھری نرم ٹھنڈی ہوا
دل کی دہلیز پر
سر جھکائے کھڑی
سوچتی رہ گئی
’’پیار کی کس قدر مختصر بات تھی
یہ پسندیدگی رات کی رات تھی‘‘

Related posts

Leave a Comment