میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔
احمد ندیم قاسمی کی 97ویں سال گرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوری1931ءمیں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر روزنامہ ”سیاست “ کے سرورق پرایک نوجوان شاعر احمد شاہ کی پہلی نظم شائع ہوئی جس نے اربابِ فکر و فن کو اپنی طرف متوجہ کیا۔اس وقت احمد شاہ کی عمر محض پندرہ برس تھی۔ بعدازاں روزنامہ ”انقلاب“ اور روزنامہ” زمیندار“ میں شائع ہونے والی نظمیں احمد شاہ کی غیر معمولی شہرت کا باعث ہوئیں۔احمد شاہ آگے چل کر احمد ندیم قاسمی ہوگئے اور روزنامہ سیاست سے شروع ہونے والا ادبی سلسلہ ایک بڑے شاعر، ایک بڑے افسانہ نگار ، ایک اہم نقاد اور ایک جید صحافی کے روپ میں ہم تک پہنچا۔13 اگست 1947ءرات بارہ بجے جب قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان کی نشریات کا آغاز سجاد سرورنیازی کی آواز میں قاسمی صاحب کے لکھے قومی ترانوں ”پاکستان بنانے والے، مبارک ہو“ اور ”ہم مسلمان ہیں، ہم مسلمان ہیں“ سے ہوا۔ سجاد سرور نیازی اُس وقت ریڈیو پاکستان پشاور کے ڈائریکٹر تھے۔
ادب اور خصوصاً اردو ادب کا ایک سرسری سا جائزہ لیں تو ہمیں کئی پرکشش شخصیات نظر آتی ہیں، کئی بڑے ادیب ملتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں خصوصیات کسی ایک انسان میں خال خال ہی ملتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ وہ محض ایک بڑے شاعر، افسانہ نگار اور صحافی ہی نہیں تھے بل کہ اپنے عہد کی ایک بڑی شخصیت بھی تھے۔ انھوں نے نوواردانِ سخن کی تربیت اور بھرپور پذیرائی کے ساتھ ساتھ خود اچھااور بڑا اَدب بھی تخلیق کیا۔ قاسمی صاحب کی شخصی اور ادبی زندگی پر غور کیا جائے تو سمجھ نہیں آتی کہ کس پہلو پر بات کی جائے اور کسے نظر انداز کیا جائے۔
قاسمی صاحب اول اول ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ ساری زندگی اسی نظریہ پر کاربند رہے لیکن ان کی شاعری کا بغور مطالعہ ان کے کلیتاً ترقی پسند ہونے کی نفی کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو قاسمی صاحب نے ڈٹ کر کبھی اس نظریہ کی وکالت نہیں کی۔ یقین نہ آئے تو فیض احمد فیض سمیت دیگر ترقی پسند شعرا کا کلام اُٹھا کر دیکھ لیں۔ فیض صاحب کی ترقی پسندی پھر ایک معقول دائرے میں گردش کرتی نظر آتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا دھیما لہجہ ہے، ورنہ دیگر ترقی پسند شعرا کے ہاں تو پیالی میں اُٹھتے طوفان والی بات ہے۔ کوئی لاش دیکھ لی تو اس پر شعر کہہ مارا، کہیں گولی چلی تو اس کو موضوع بنا لیا۔ اخبار میں فاقے کے باعث کسی کی موت کی خبر دیکھ لی، تو اس پر نظم کہہ ڈالی۔ ترقی پسند شاعری تھی کیا، ایک ابال ایک وقتی جوش۔ شعر سوچنے پر مجبور کرتا ہے لیکن ترقی پسندی کے تحت کہے جانے والے اشعار کواخباری خبر کی طرح پڑھا، سنا گیااور خبر کی زندگی کتنی ہوتی ہے، ہم بہ خوبی جانتے ہیں۔ترقی پسند ادب کا محض واقعاتی ادب بننے کا بنیادی سبب ترقی پسند شعرا کے مزاج میں سطحی پن کا غالب ہونا ہے۔ فیض صاحب کے ہاں ہمیں اس ترقی پسندی کی ایک refined formملتی ہے اور اسی باعث ان کی شاعری دل کو بھی لگتی ہے۔ لیکن احمد ندیم قاسمی ، کہ جن کو بیش تر پسند ترقی پسند،نعت کہنے کے باعث ترقی پسندی کے درجے پر فائز بھی نہیں کرتے تھے، کا معاملہ اور آگے تک چلتا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں، ابتدا کی چند تخلیقات چھوڑ کر، واقعاتی اور سطحی پن کہیں نظر نہیں آتا۔ بل کہ مجھے تو ان کی ابتدائی شاعری میں بھی فکری چنگاریاں اپنا روپ دکھاتی نظر آتی ہیں۔
قاسمی صاحب کی شاعری ایک سوچنے، سمجھنے والے انسان کی شاعری ہے۔ اسی لیے یہ شاعری قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ان کے اشعار ”سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں“ جیسے کلیوں پر پورے نہیں اترتے کہ ان کے نزدیک شاعری محض تفریح کی چیز نہیں ہے۔ شاعر نے معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور شاعر کو یہ منصب ودیعت ہوا ہے۔
قاسمی صاحب کی شاعری کا بنیادی موضوع انسان ہے۔لیکن انسان کو اپنا موضوع بناتے ہوئے بھی وہ ترقی پسندوں کے انسان اور انسانی مسائل سے کوسوں دور رہے کہ اُدھر سطحیت کا دور دورہ تھا اور اِدھر طبیعت میں ایک ٹھہراو¿، ایک متانت تھی، ایک مصلح اور ایک ذمہ دار معاشرے کا ذمہ دار فرد تھا۔ احمد ندیم قاسمی کا انسان محض احمد ندیم قاسمی نہیں، ان کے اپنے معاشرے، اپنے شہر اور اپنے ملک کا انسان نہیں، ان کا انسان تو پوری دنیا کا انسان ہے۔ اور قدیم سے حال تک کا انسان۔ ان کا انسان جن مسائل سے دوچار ہے،وہ عام زندگی سے لے کر سیاسی، سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی فکر پر محیط ہیں۔ اور پھر یہ انسانی مسائل فلسفے، تصوف اور ما بعدالطبیعیاتی فکر تک جا پہنچتے ہیں۔ ان کا چیزوں کو دیکھنے اور بعدازاں ان کا تجزیہ کرنے کا ایک اپنا اور ازحد منفرد انداز ہے۔ان کی آپ بیتی جگ بیتی بن جاتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی انسان کو حسن، رنگ، صدا اور مسلسل ارتقا کہتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی ایک ادبی تحریک ، ایک ادبی ادارہ تھے۔ان کی زندگی میں زیادہ بات ان کی شخصیت پر ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی رُک گیا۔ لیکن قاسمی صاحب کی نظم، غزل، افسانہ، تنقید اور کالم نگاری ایسی نہیں ہیں کہ انھیں اتنی جلدی فراموش کر دیا جائے۔
محترم نجیب احمد صاحب ہر سال 21نومبر کو قاسمی صاحب کی سال گرہ کی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔اس سال ماہِ محرم کے احترام میں قاسمی صاحب کی سال گرہ کی تقریب 21نومبر کی بجائے آج مورخہ 21دسمبر کو ادبی بیٹھک الحمرا میں منعقد ہوئی۔تقریب کا اہتمام ادارہ ”بیاض“ لاہور نے کیا۔تقریب کی صدارت محترمہ ناہیدقاسمی نے کی۔ تقریب کے مہمانانِ خصوصی جناب امجد اسلام امجد، جناب ڈاکٹر اجمل نیازی، جناب نجیب احمد اور محترمہ فرحت پروین تھیں۔ نیر حیات قاسمی، نعمان منظور، نوید صادق اور امجد طفیل نے قاسمی صاحب کی شخصیت اور فن کے حوالے سے مضامین پیش کیے۔ مہمانانِ خصوصی نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس خوبصورت تقریب کے اہتمام پر جناب نجیب احمد، جناب عمران منظور، جناب اسد احسان، جناب نعمان منظور اور جناب اعجاز رضوی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
ہر شے اپنی اپنی زباں میں اظہارِ حالات کرے
صبح کو چڑیا پیڑ پیڑ سے شب بسری کی بات کرے
کٹی پتنگ ہے ساری دنیا کی نظروں میں سمائی ہوئی
جتنے ہم تجھ سے کترائے، اتنی تری رسوائی ہوئی
مفہوم میں کچھ فرق ہے، الفاظ وہی ہیں
دیوار پہ لکھا ہوا میں نے بھی پڑھا ہے
سونی سونی گلیاں ہیں، اُجڑی اُجڑی چوپالیں
جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں
تمام عمر وفا کے گناہ گار رہے
یہ اور بات، کہ ہم آدمی تو اچھے تھے
سلامی کو جھکے جاتے ہیں اشجار
ہوا کا ایک جھونکا جا رہا ہے
جو شاخ تنے کی نفی کر دے
اس شاخ پہ کیا گلاب آئے
میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو
بھٹکی ہوئی نیکیاں کماو¿ں
امکان پہ اس قدر یقیں ہے
صحراو¿ں میں بیج ڈال آؤں
یوں اُس نے ندیم مجھ کو دیکھا
جیسے کوئی راستا دِکھا دے
شاعر ہو کہ حکمراں کہ صوفی
اِس دور میں سب کا رنگ فق ہے
اے سنگ زنو! بہار آئی
پتھر پہ کِھلا گلاب میرا
ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں
مر جاتا ہوں، جب یہ سوچتا ہوں
میں تیرے بغیر جی رہا ہوں
دیکھیں، تو ہوا جمی ہوئی ہے
سوچیں، تو درخت جھومتے ہیں
مت مانگ دعائیں، جب محبت
تیرا میرا معاملہ ہے
اس عیادت کی بلاغت کے نثار
مجھے مرقد کا دیا یاد آیا
نظر آئے انھیں سبزے میں بھی سانپ
ہم نے صحرا بھی ثمرور دیکھے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔