”شیر آیا،شیر“

میرا پاکستان

………….

”شیر آیا،شیر“

……………

بچپن میں پڑھی ہوئی کہانیاں بعض اوقات عجیب و غریب سیاق و سباق میں ذہن کی دیواروں پر دستک دیتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کہانیاں وہ ہیں جنھیں ہمارے ہاں لوک دانش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ کہانیاں کب، کہاں تخلیق ہوئیں؟ ان کا خالق کون تھا؟ ان باتوں کا سوال میری طرح شاید میرے بڑوں کے پاس بھی نہیں تھا۔ بس ایک تسلسل ہے کہ قائم ہے۔ انھی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج عجیب طرح ذہن میں آ گئی۔
چرواہے نے ایک روز سوچا کہ اگر کسی دن شیر اُسے اور اُس کی بھیڑوں کو کھانے کی غرض سے آ نکلا تو وہ کیا کرے گا؟ پھر اُسے خیال آیا کہ گاو¿ں والوں کے ساتھ اس کا ایک طویل ساتھ ہے، وہ ضرور اُس کی مدد کو آئیں گے۔ لیکن اگر وہ نہیں آئے تو! اُس نے سوچا، کیوں نہ عملی سطح پر دیکھا جائے کہ گاؤں والے اس کی مدد کو آتے ہیں کہ نہیں، یہ سوچتے ہوئے وہ ایک ٹیلے پر چڑھا اور’ شیر آیا‘، ’شیر آیا‘ کی صدائیں لگانے لگا۔ تھوڑی دیر میں گاؤں کی طرف سے لوگوں کو اپنی طرف بھاگتے دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ گاؤں والے اُس کے پاس پہنچے، پوچھنے لگے: میاں چرواہے، کہاں ہے شیر۔ چرواہا بولا: میں تو محض دیکھ رہا تھا کہ تم میری مدد کو آتے ہو کہ نہیں۔ گاؤں والے سخت برہم ہوئے اور لوٹ گئے۔ کچھ دن بعد چرواہے کو پھر اُسی تشویش نے آن گھیرا۔ وہ پھر ٹیلے پر چڑھ کر ’شیر آیا‘، شیر آیا‘ پکارنے لگا۔ گاؤں والے بھاگم بھاگ اُس کی مدد کو پہنچے اور شیر کو نہ پا کر سخت برہم ہوئے۔ چرواہا مطمئن ہو گیا کہ گاؤں والے اُس کے اپنے ہیں، اُسے مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ خدا کا کرنا کیا ہواکہ ایک دن شیر سچ مچ آن دھمکا۔ چرواہا لگا پکارنے،’شیر آیا شیر‘، ’بچاؤ‘۔ دوسری طرف گاؤں میں لوگوں نے اُس کی چیخ و پکار سن کر ان سنی کر دی کہ چرواہا شاید ایک بار پھر اُن کا امتحان لے رہا ہے۔ شیر نے میدان صاف پا کر اپنی بھوک مٹائی اورچلتا بنا۔ کچھ کچھ یاد ہے کہ ہر کہانی کے نیچے اُس کہانی سے ایک نتیجہ بھی نکالا جاتا تھا۔ اور یہ نتیجے زیادہ تر اخلاقی اور معاشرتی حوالوں سے ہوا کرتے تھے۔
ہمارے ہاں حکومتی سطح پر عوام سے کیے گئے وعدوں ، منصوبوں کا یہ عالم رہا ہے کہ اب تو اِن نعرہ نما وعدوں کو سن سن کر کان پکنے کو ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، زیادہ عرصہ تو آمریت کے زیرِ تسلط پایا، لیکن جو اِکا دُکا جمہوری حکومتیں سامنے آئیں، اُن کا حال بھی نہایت مضحکہ خیز رہا۔ ہر سیاسی جماعت انتخابات سے قبل اپنے منشور کا اعلان کرتی ہے، ان منشورات میں عوام سے لمبے چوڑے وعدے کیے جاتے ہیں، منصوبوں کے بارے میں یوں جانیے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے منصوبے کس نے سوچے، دیکھے ہوں گے۔ خیر اُن کی قسمت اُن کے ساتھ اور ہماری بدبختی ہمارے ساتھ۔ انتخابات ہوتے ہی ہارنے والی جماعتیں تو پانچ سال بعد کی جگہ چھ سات ماہ میں ہی حکومت گرانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دیتی ہیں۔اور جیتنے والے خوش نصیب ! اُن کے تو جیسے وارے نیارے ہو گئے، اپنے گھروں سے نکلتے ہی نہیں، نکلتے بھی ہیں تو صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے۔ جس منصوبے میں چار پیسے بنتے نظر آئے، اُسے آغاز کرنے کا شرف بخش ڈالا ورنہ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب تو جیسے ہمیں اس سب کی عادت سی ہو چلی ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں حزبِ اختلاف نے شروع میں ہی اعلان کر دیا کہ کچھ بھی ہو، اس جمہوری حکومت کو پانچ سال پورے کروائیں گے۔ان پانچ سالوں میں اِدھر اُدھر سے کچھ چھوٹی موٹی اورکچھ محض نام کی جماعتیں شور شرابا کرتی رہیں، حکومت گرانے کے لیے کہیں کہیں احتجاج بھی ہوئے، لیکن کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے نہ صرف حزبِ اختلاف کا کردار انتہائی خوش اسلوبی سے ادا کیا بل کہ اپنے عوام سے جمہوریت کے تسلسل کو رواج دینے کے وعدے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔پیپلز پارٹی نے اچھے برے پانچ سال پورے کیے، وقت پر انتخابات کروانے کا وعدہ پورا کیا اور اُس کے بعد اپنی شکست کو بھی تسلیم کر لیا۔ پاکستان کے عوام نے پہلی بار کسی جمہوری حکومت کو اپنی معینہ مدت پوری کرتے دیکھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں ’مظلوم‘ کوئی نہیں تھا۔ ورنہ سارے ووٹ تو وہی سمیٹ لے جاتا ہے۔پاکستان کے عوام نے بری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو مستردکردیا اورپاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔
بات چلی تو تھی چرواہے سے اور جا پہنچی کہیں کی کہیں ۔ پاکستان میں حکومت میں آنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دورِ حکومت میں عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھتی تھیں۔ اب تو یوں لگتا تھا کہ شاید ان کی اور ہم پاکستانی عوام کی تقدیر ہی ایسی ہے، سو کسی سے کیا شکوہ۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کا جمہوری تسلسل کو تقویت دینے کا وعدہ پورا ہوا تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں کچھ ہوا ہے، کہیں کوئی تبدیلی کی لہر ہے، اچھا برا کچھ تو ہو گا۔
نئی حکومت کو کئی مسائل جہیز میں ملے، جیسے بجلی کا مسئلہ کہ ایک عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑا تھا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عوام سے وعدہ کیا کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے گا۔ اور پھر ہوا یوں کہ آج ایک دم بجلی گئی تو ہم اپنے گھر والوں سے گویا ہوئے: لو، لوڈ شیڈنگ شروع۔ ہمارا یہ اندازہ غلط نکلا اور ہماری بات کے ختم ہوتے ہی بجلی آگئی۔تب ہمیں احساس ہوا کہ بجلی تو کئی دن سے نہیں گئی۔مبارک ہو، بھائی! اب ہم رات بھر سکون سے سوتے ہیں۔ حکومتِ وقت نے عارضی طور پر ہی سہی، اس جن کو بوتل میں بند کر ڈالا ہے۔اور انشاءاللہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل بھی نکل ہی آئے گا۔اسی طرح پاکستان ریلوے کی حالت بھی بہتر ہوتی نظر آرہی ہے۔ تو بھائیو! ہم نے کہا تھا ناں، کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ واقعی تبدیل ہو رہا ہے۔ اب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے صنعت کاروں کے لیے ”رعایتی پیکج“ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں اتنی پیچھے چلی گئی ہیں کہ ان کو سہارا دینے کے لیے ایسا کوئی پیکیج بہت ضروری ہو گیا تھا۔ لیکن یار لوگ بھی کیا کریں کہ مسلسل ایک سے حالات نے انھیں کہیں اندر سے بدگمان کر ڈالا ہے۔ دھوکے کھا کھا کر یہ بدگمانیاں شاید ہماری نفسیات کا حصہ بن چکی ہیں۔ اور ہم ہر نئے اعلان پر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہو نہ ہو اِس میں بھی کوئی چال ہو گی۔ اور پھر اپنی اپنی جگہ اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کر دیتے ہیں۔ ہمیں ہر اعلان، ہر منصوبہ ”شیر آیا شیر“ کی طرح جھوٹ لگنے لگا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو کیا ہو گا؟ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ میں، آپ، سب جانتے ہیں۔ ہم تو ہر نئے منصوبے کے اعلان پر یہی دعا کرتے ہیں کہ بجلی اور ریلوے کی طرح ، یہ نیا شیر بھی آ ہی جائے ( آمین) کہ کہانی میں وقت کے ساتھ تبدیلی آگئی ہے اور اب شیر خوف اور موت کی علامت کی بجائے امید اور خوش حالی کا استعارہ بنتا نظر آرہاہے۔

………………………………………..

Dec 02, 2013

Related posts

Leave a Comment