چلیے یوں ہی سہی لیکن! … نوید صادق

میرا پاکستان
……

چلیے یوں ہی سہی لیکن!
…….

لیجیے صاحب، عید میلادالنبی بھی گزر گئی۔ عبادات کی گئیں، غریبوں کو کھانے کھلائے گئے۔ لوگوں نے گھروں پر برقی قمقمے روشن کیے، جھنڈیاں لگائیں، دفاتر پر جگ مگ کا سماں کیا گیا، بچوں نے گلی کوچوں میں من پسند پہاڑیا ں بنائیں، محافلِ میلاد منعقد ہوئیں۔نعت کی محفلیں آراستہ کی گئیں۔ یہ ہماری عقیدت کا ایک انداز ہے اور شاید ایک دو باتوں کو چھوڑ کر باقی سب کام ہم صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ کرنا بھی چاہئیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت جو ہے۔ اللہ اس دن کی برکت سے ہم سب مسلمانوں کی خیر فرمائے۔ لیکن اب کچھ سالوں سے سڑکوں پر کچھ ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جنھیں دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے اور کہیں کہیں تو شرم سے سر بھی جھکانا پڑ جاتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ایسا کرنا زیبا ہے؟ مختلف شہروں میں نکالے گئے جلوسوں کا نظارہ کہیں کہیں اچھے مناظر پیش نہیں کر رہا۔ آج لاہور میں بھی ایسے ہی کچھ مناظر نظر پڑے۔ ایک جلوس نظر پڑا جس کے شرکاءسڑک پر آنے جانے والوں کے لیے تکلیف کا سامان کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے کچھ ایسے نوجوان بھی دیکھے جو جلوس کے لیے راستہ خالی کروا رہے تھے، انھوں نے کچھ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار افراد کو رستے سے جلد نہ ہٹنے پر گالیاں بھی دینا شروع کر دیں۔ ان نوجوانوں کے پیچھے آنے والوں بزرگوں اور معزز افراد نے انھیں اس بات سے روکنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ خود سوچیے کہ عید میلاد النبی کے جلوس کے شرکاءکو ایسی باتیں زیب دیتی ہیں؟ ویسے اگر دیکھا جائے، اور علما سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ 12ربیع الاول کو جلوس نکالنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پھر یہ کہ ان جلوسوں میں ساز پر پڑھی بل کہ گائی گئی نعتوں کو بلند آواز میں چلانا کہاں تک درست ہے۔دف کے علاوہ دیگر سازوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ انڈین نغموں کی مقبول دھنوں پر پڑھی گئی نعتیں کس زمرے میں آتی ہیں۔ مزید دیکھیے کہ شام کے وقت مال روڈ پر موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کا ٹولیوں کی شکل میں ہلہ گلہ ۔۔۔ یہ سب قرآن و حدیث کی رُو سے کس شمار میں آئیں گے۔ اللہ کے بندو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا سب ہمارے لیے مثالی اور لازمِ تقلید ہے لیکن کیا ہم نے عید میلادالنبی کے جلوس میں شامل ہونے سے پہلے یہ سوچا کہ ہمارے اس فعل سے ہمارے کسی بھائی کو تکلیف بھی ہو سکتی ہے، کیا ہم نے سوچا کہ سڑک روک کر، کوئی محفل منعقد کر کے ہم اپنے بھائیوں کے لیے مشکل پیدا کر رہے ہیں۔کیا ہم نے اپنے گھر، محلے میں برقی قمقمے روشن کرنے سے پہلے یہ سوچا کہ سادگی کے معاملے میں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما گئے ہیں اور کیا ہمارے ہمسائے نے پیٹ بھر کر کھانا بھی کھایا ہے کہ نہیں۔ ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے نبی محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے بہترین طرزِ عمل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ہمیں اعتدال کا سبق دیتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: زمین میں اکڑ کر نہ چلو، سادگی اللہ تعالی کو پسندیدہ جب کہ نمود و نمایش اور فضول خرچی اللہ تعالیٰ کی ناشکری کا سبب بنتی ہیں۔“ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میانہ روی، اعتدال پسندی اور سادگی معاشی زندگی کی خوش گواری کا نصف حصہ ہے۔“ یہ ہم جو دورِ حاضر میں اتنے کٹھن مسائل کا شکار ہیں کہیں اس کی وجہ ہماری انھی بنیادی تقاضوں سے روگردانی تو نہیں۔
یقینا ایسا ہی ہے لیکن ہم کبھی خوداحتسابی کے عمل سے نہیں گزرے،ہمیں تو لفظ احتساب ہی سے چڑ ہے کہ اس میں انسان کا سب کیا دھرا سامنے آ جاتا ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے اپنا اپنا احتساب شروع کر دیں تو کچھ بعید نہیں کہ ہمیں اپنی غلط روشی کو احساس ہو جائے اور واضح رہے کہ احساس کے بعد سدھار میں خاص وقت نہیں لگتا۔ ہم اگر عہد کر لیں کہ ہم صرف وہی کریں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا تویقینا ہمیں کسی بھی شعبہ زندگی میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔
ایک طرف تو ہم ہیں کہ جن کے کسی بھی طرزِ عمل سے یہ نہیں کھلتا کہ ہم واقعی مسلمان ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو شریعت کے نفاذ کے نعرے لگا کر ہمیں اس گئی گزری حالت میں مزید تباہ و برباد کرنے کے چکر میں ہیں، ہماری جان تک کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ انھیں شاید اُن کا کوئی خیرخواہ یہ بتا گیا ہے کہ جو اُن کے دلوں میں ہے، جو وہ جانتے ہیں، اُس کے سوا سب غلط ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت دے لیکن ہمیں بھی کچھ ایسا کر دکھانا ہو گا کہ حشر کے دن ہم اپنے مالک کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ ہمارے مذہب میں عبادات محض پانچ فیصد ہیں، باقی پچانوے فیصد تو اعمال ہیں۔ ہم پانچ فیصد کو انجام دے کر باقی پچانوے فیصد کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ اس پچانوے فیصد میں سب سے اہم اور کثیر حقوق العباد ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حقوق العباد کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔تو کیا ہمیں اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف توجہ نہیں دینا چاہیے کہ ہم اپنے مالک کے حضور شرمندگی سے بچ سکیں۔ہمارے معاشرتی اور معاشی نظام کی اصلاح اسی راز میں مضمر ہے۔ حقوق العباد سے شعور و آگاہی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔اگر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس طرف توجہ دیں تو ہمیں معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے کسی غیر کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہرگز پیش نہیں آئے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات ہمارے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات اور کامیابی کا راستا ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کون سی راہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۱۷ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment