بھارت بمقابلہ امریکہ اور ہمارا خطہ ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
………

بھارت بمقابلہ امریکہ اور ہمارا خطہ
………………

ہم نے کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ طاقت ور کسی کا دوست نہیں ہوتا ۔ اسے ہر حال میں، ہر صورت میں اپنا مفاد درکار ہوتا ہے، اور وہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے ہر ممکن، غیر ممکن حد تک جاتا ہے۔ اپنے اچھے وقتوں میں برطانیہ کا رویہ پوری دینا پر عیاں ہے۔ توسیعِ سلطنت کی ہوس نے اسے کہاں کہاں کی خاک نہیں چھنوائی۔ برطانیہ نے اپنے عوام کو یہودی شر سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک طویل اور سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہودیوں کو فلسطینیوں کے سر پر سوار کر ڈالا۔برطانیہ کی اس مفاد پرستی کے نتائج عرب بلکہ پوری مسلم اُمہ آج تک بھگت رہی ہے۔ جواب میں عربوں نے کیا کیا، ایک کوشش، ایک جنگ کے بعد چپ سادھ لی کہ مغرب نے انھیں زندگی کرنے کے نئے ڈھب سکھانے شروع کر دیے۔ مسلم دنیا میں انور سادات اور پھر شاہ فیصل کے بعد کوئی نہیں اٹھا، قذافی نے بھی شاہ فیصل کے قتل کے بعد خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ اِدھر ذوالفقار علی بھٹو کہ اس ٹرائیکا کے اہم رکن تھے ، پھانسی چڑھوا دیے گئے۔ قذافی کی بروقت خاموشی نے شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کی نسبت انھیں زندگی کے مزے لوٹنے کا زیادہ موقع فراہم کیا۔ لیکن امریکہ اور دیگر حواریوں کو یاد رہا کہ یہ شخص بھی انھیں آنکھیں دکھانے والوں میں سے ایک تھا، سو موقع پاتے ہی قذافی کا کام بھی تمام کر دیا گیا۔ صدام حسین کو ان کی کھوکھلی بڑھکیں لے ڈوبیں۔اس سب کے باوجود ایک ایران کا دم ہے کہ گاہے گاہے امریکہ اور اسرائیل کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے۔ ایرانیوں نے ایک طویل عرصہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد پابندیاںبرداشت کیں۔ اور پچھلے دنوں جب ایرانی صدر حسن روحانی کی خواہش اور کوشش کے بعد یہ برف ذرا پگھلنے لگی تو اسرائیل کے مفادات آڑے آگئے اور یہ سلسلہ گو کہ ابھی بالکل رکا نہیں، لیکن اس کے آگے بڑھنے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی اور ڈرون حملے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہم لوگ ”جو ہو رہا ہے، ٹھیک ہو رہا ہے“ کے مصداق یوں ہی وقت کاٹتے رہیں گے کہ ان معاملات میں کون الجھے اور کیوں الجھے۔ عمران خان آج جو نعرے لگا رہے ہیں، جو احتجاجات ریکارڈ کروا رہے ہیں، محض وقت گزاری اور سیاست کے شعبہ میں کرکٹ کی طرح دھرنوں اور احتجاجات کا کوئی نیا ریکارڈ بنانے کے چکر میں لگتے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال اور عمران خان کے عزائم دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جلد ہی ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ، قلیل ترین مدت میں کثیر ترین دھرنے اور احتجاج کرنے اور کروانے والے کی حیثیت سے درج ہو جائے گا۔ خیر ہم سادہ لوح عوام تو اس پر بھی صبر شکر کرتے ہوئے انھیں مبارک باد دینے پہنچ جائیں گے کہ چلیے موصوف نے پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے کہیں توکچھ کیا۔ حالاں کہ کرکٹ کے میدان میں نمایاں کارکردگی اور کینسر ہسپتال کی تعمیر اور اس کا نظم و نسق چلانے کے بعد انھیں مزید نیک نامی کی بہ ظاہر خواہش ہونا تو نہیں چاہیے تھی، لیکن کیا کیا جائے کہ بقولِ غالب: ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ خان صاحب ہیں بہت چالاک۔ آج ہمارا اُن پر بات کرنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن ان کا ذکر چھڑا اور پھر چھڑتا چلا گیا۔ ہاں تو ہم بات کر رہے تھے طاقت ور اور کمزور کے بارے میں۔ تو طاقت کے زعم میں روس کے کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ روس نے اپنے اردگرد کی کون سی ریاست ایسی تھی جسے اپنی توسیع پسندی کی بھینٹ نہیں چڑھایا لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ہر عروج کے بعد ایک زوال قوموں کے انتظار میں رہتا ہے۔ اِدھر اُدھر کی چھوٹی موٹی ریاستوں کو ہڑپ کر جانے والا روس اپنی طاقت کے زعم میں افغانستان میں داخل ہوا اور پاش پاش ہو کر واپس گیا۔ افغانستان میں روسی افواج کے خلاف افغانیوں کے شانہ بہ شانہ لڑنے والے سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات بھی پیش پیش رہے۔ اور امریکہ نے دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر انتہائی سادگی سے اپنے مقاصد حاصل کر لیے۔ افغانی خوش تھے کہ انھوں نے روس کو مار بھگایا، ہم خوش تھے کہ ہم نے اپنی سرحدیں محفوظ کر لیں لیکن انھی دنوں امریکہ کے لبوں پر ایک دبی دبی ہنسی تھی کہ: آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اور پھر جو ہوا، اب اس پر کیا بحث کریں کہ کچھ لوگ تو اسے تقدیر میں لکھا سمجھ کر خاموش ہو گئے اور کچھ خاموش کرا دیے گئے۔
عراق، لیبیا، تیونس، شام، مصر بھی امریکی چودھراہٹ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ چین نے پر پرزے نکالے اور گذشتہ دنوں اس کا ہلکا سا مظاہرہ بھی کیا۔ اب امریکہ اور چین کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہی ہے، جس کے نتائج اردگرد کے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا ہوں گے۔
امریکہ اس وقت عالمی افق پر طاقت ور ترین ملک ہے۔ دولت اور اثاثوں کے اعتبار سے بھی سب سے آگے ہے۔بھارتی حکمران اور عوام ہمیشہ سے اس زَعم میں تھے کہ امریکہ چوں کہ مسلمانوں کا دشمن ہے، تو اس ناتے ان کا دوست ہوا، لیکن گذشتہ دنوں بھارتی سفیر کے ساتھ جو ہوا، اس نے تو سب کھول کے رکھ دیا۔ موصوفہ کو برہنہ کر کے ان کی تلاشی لیا جانا، اور بعد ازاں انھیں جیل بھیج دینا، یقیناً قوموں کے درمیان اچھے تعلقات کی نشان دہی نہیں کرتے۔ اب بھارت بپھر گیا ہے۔ تابڑ توڑ جوابی حملے ہو رہے ہیں۔ بھارت میں حکومت اور اپوزیشن اس مسئلے پر ایک ہوگئے ہیں۔ بھارت میں تعینات امریکی عملے سے ہر طرح کی مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔ امریکہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس سے فی الحال امریکہ انکاری ہے۔ بھارتی حکومت اس واقعہ کو بنیاد بنا کر اپنے عوام کا احساسِ کم تری بھی دور کرنا چاہتی ہے۔ امریکہ ابھی تک اپنی طاقت کے زعم میں ہے۔ احساسِ تفاخر اسے معافی مانگنے سے دور رکھے ہوئے ہے۔ ان حالات میں حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں ملا عبدالقادر کی پھانسی کے بعد پاکستان کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے۔ اور اِدھر پاکستان میں خان صاحب کے کھولے محاذ ہی ہمیں مصروف رکھنے کو بہت ہیں ۔
ایسے میں چاہیے تو یہ کہ خطے کی سلامتی کے لیے کام کیا جائے۔ اور ڈٹ کر طاقت وروں کو جواب دیا جائے کہ افغانستان میں کھلم کھلااور پاکستان میں پردے پردے میں اپنے عزائم کی جنگ لڑنے والا امریکہ کہیں رُکے گا نہیں۔اورپس ماندہ، ترقی پذیر ممالک کے عوام اور حکومتیں جس احساسِ کم تری کا شکار ہیں، اُس سے کبھی چھٹکارا نہیں پا سکیں گی۔ لیکن بھارتی سفیر کے ساتھ امریکی رویہ سے تمام ممالک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ صرف مسلمانوں کا ہی دشمن نہیں۔ امریکی مفادات اور امریکی عزائم دنیا کی تمام اقوام اور تمام مذاہب کے لیے خطرہ ہیں کہ اُس کے پیچھے یہودی لابی متحرک ہے اور یہودی اپنے علاوہ کسی کے خیر خواہ نہیں۔ یہودیوں کے نزدیک تمام مذاہب غلط اور قابلِ نفرت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۲۴ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment