میرا پاکستان
……..
قائد اعظمؒ سے بات چیت
……………..
قائد! آج ہم آپؒ کی سال گرہ منا رہے ہیں۔ہم نے آج اپنی صبح کا آغاز اکیس توپوں کی سلامی سے کیا۔ آپؒ کے مزار پر حاضریاں ہوئیں۔مزار پر گارڈز بدل دیے۔ پھول چڑھائے گئے ۔ بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی تقریریں کیں۔ آپؒ سے محبت کے دعوے کیے۔ آپ یہ سب دیکھ کر خوش نہیں ہوئے؟ کیوں؟ اب ہم اور کیا کریں؟ ٹی وی چینلز پر آپؒ کے پروگرام چل رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو یہ سلسلہ رات بارہ بجے شروع کیا۔ اور کچھ ہفتہ بھر سے لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ بڑے دھڑلے سے آپؒ پر گفتگو کر رہے ہیں، کبھی کبھی تو انھیں دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔یہ لوگ جس موضوع پر بات کر رہے ہیں، اس کی روح سے واقف نہیں ہیں۔ آپ کے کہے پر عمل تو اب کون کرے گا، کہ یہ سب بزعمِ خود نئے لوگ ہیں اور خود تاریخ بنانے کے چکر میں ہیں۔ کیا یہ لوگ ایسا کر پائیں گے؟ ہرگز نہیں کہ تاریخ ہوا میں تشکیل نہیں پاتی۔
قائد! کچھ تو کہیے، اچھا۔۔ تو آپؒ ناراض ہیں۔ لیکن، کیوں؟ ٹھیریے، ہم خود ہی اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔آپؒ نے ”کام، کام اور بس کام“ کا نعرہ لگایا لیکن ہم تو ”آرام“ اور ”حرام“ کے چکر میں ہیں۔آپ نے ڈاکٹر اقبالؒ کے کہنے پر پاکستان کا نعرہ بلند کیا، ہم آپؒ کے پیچھے چل پڑے، سب نے بہت کام کیا۔ کتنے لوگوں نے آپؒ کے پیچھے اپنا تن من دھن سب قربان کر دیا۔ لیکن ایک دو نسلیں آگے آ کر ہم بھول ہی گئے کہ ہم نے اتنا کام کیوں کیا تھا، اتنی جانیں کیوں دی تھیں۔ہم نے آپؒ کی آواز سنی، ہم نے آپؒ کی آواز کی روح نہیں سمجھی۔ آپؒ کے فلسفہ کو نہیں جان پائے۔کہیے، آپؒ اسی لیے خفا ہیں ناں! آپؒ بولتے کیوں نہیں۔ اِدھر آپؒ خاموش ہیں، اُدھر ڈاکٹر اقبالؒ بھی چپ ہیں۔ ہم نے ان سے بھی پوچھا تھا، لیکن انھوں نے چپ کا تالا نہیں توڑا اور ہم نے بہت شور مچایا تو بڑے دُکھ سے گویا ہوئے: شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے۔
قائد! یاد آیا، آپؒ نے کہا تھا: ”برداشت کے سچے جذبے کا مظاہرہ کریں“۔ ہم نے شاید اس بات پر عمل نہیں کیا۔ یا شاید ہم اس بات کو سمجھے ہی نہیں۔آپؒ نے کہا تھا: ”مساوات اور اخوت سے جمہوریت تشکیل پاتی ہے“۔ آپؒ نے ٹھیک کہا تھا۔ ہم نے بہت برداشت کیا، اچھے برے حالات کو، لیکن جو برداشت آپؒ چاہتے تھے وہ ہم تک نہیں پہنچی۔ مذہبی رواداری، بھائی چارہ، مساوات، اخوت۔۔۔ آپؒ یہی چاہتے تھے ناں! لیکن ہم کیا کریں، جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ایک نفرت ہماری گھٹی میں ڈال دی گئی۔ پہلے پہل تو ہمیں بتایا گیا کہ اپنے مسلک سے ہٹ کر تمام مسالک پر عمل پیرا لوگ مسلمان ہی نہیں ہیں، پھر بات تھوڑی آگے بڑھی تو دوسرے مسالک کو واجب القتل ٹھہرایا جانے لگا۔ پھر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ہم بھول گئے کہ آپ نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں کیا کہا تھا، ہم نے مندر، چرچ گرانے شروع کر دیے۔ مسجدوں میں دھماکے کرنے لگے۔ ہم کیا کریں۔ ہم پر مسلط لوگوں نے ہمیں یہی سکھایا تھا۔ آپؒ نے کہا تھا : ” ہمیں پنجابی، سندھی، بلوچی بن کر نہیں سوچنا، ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہے“۔ سوچنے کی بات تو دور،یہاں یہ عالم ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک بار ہم نے ایک سڑک پر اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے مخالف سمت سے آنے والے ایک ڈرائیور سے کہا کہ بھائی: اس ہاتھ چلنے کا حق تو ہمارا تھا، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو جواب ملا: ”پاکستان میں ایسا ہوتا ہو گا، وہیں جا کر اپنے یہ اصول چلانا۔“ جی چاہا کہ نیچے کھائی میں چھلانگ لگا دیں۔2009ءمیں ہماری ٹرانسفر کراچی ہوئی، ہم نے رختِ سفر باندھ لیا ۔ والدہ کو فون کیا: ہم کراچی جا رہے ہیں، جواب ملا: نوکری چھوڑ دو۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی اور نوکری چھوڑ دی۔2010ءمیں ایک کمپنی نے ہمیں جیکب آباد میں کام کی پیش کش کی تو بیوی بچے آڑے آ گئے کہ ہم نہ جائیں گے، نہ جانے دیں گے۔ہمیں یہ اخوت ملی، یہ بھائی چارہ ملا۔ لیکن ہم آپؒ سے کیوں گلے کریں، آپ نے ایسا نہیں چاہا تھا، ڈاکٹر اقبالؒ بھی کچھ اور ہی خواب دیکھ رہے تھے۔ آپ دونوں تو بین الاقوامی افق پر پاکستان کو ایک سپر پاور بنتا دیکھ رہے تھے۔ لیکن ہم ہی بدبخت نکلے جو سو سال بھی نہ ہونے پائے تھے کہ سب بھول گئے۔
قائد! خدارا کچھ کہیے، ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے جب کچھ مفاد پرست آپؒ کے بارے میں اُلٹی سیدھی ہانکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو معاشرے کی ابجد تک سے ناواقف ہیں، اُنھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ قوم اور ملک کے کیا معانی ہوتے ہیں۔بس بولے چلے جا رہے ہیں۔ پچھلے برس ایک کتاب ہمارے ہاتھ لگی، جس میں جاہل مصنف نے آپؒ کو غیر مسلم ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم سے برداشت نہیں ہوا ، ہم نے اِس ڈر سے کہ یہ کتاب کہیں کسی بچے کے ہاتھ نہ لگ جائے، اسے نذرِ آتش کر ڈالا، لیکن ظاہر ہے دو سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہزاروں کی تعداد میں چھپی ہو گی، ہم کس کس کو جلاتے۔ ہاں اپنے بڑوں سے درخواست کریں گے کہ ایسی تمام کتابوں پر پابندی لگا دیں۔ اِدھر کچھ سالوں سے کچھ تخلیق کار اور خودساختہ، نام نہاد مورخین دو قومی نظریہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو وجود میں ہی نہیں آنا چاہیے تھا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہ لوگ ایسی باتیں بڑے دھڑلے سے اسٹیج پر آ کر کہتے ہیں۔ کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ قائد! یہ انھی لوگوں کی نسلوں میں سے ہیں جو بہ ظاہر آپؒ کے ساتھ تھے لیکن ان کے دلوں کی دھڑکنیں ہندؤں سے وابستہ تھیں۔
قائد! ہمیں معاف کر دیجیے، ہم نے تکلیفیں سہیں، قربانیاں دیں، لیکن کندن نہیں بن پائے۔ایک مضبوط قوم نہیں بن پائے۔ ہماری نیتوں میں آپؒ کے چلے جانے کے بعد کھوٹ در آیا۔ ہم نے برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم قیامِ پاکستان کے فلسفہ کو نہیں سمجھے، قائد! دُعا کیجیے کہ ہم قیامِ پاکستان کے فلسفہ کو سمجھ اور سمجھا پائیں۔قائد! ہمیں اس سناٹے سے ڈر لگتا ہے، خدارا، اس چپ کو توڑیے۔
”اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے، اب بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں، اور جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں، اتنا بڑا اِرادہ اور اتنی ہی بڑی عظیم جد و جہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئی ہیں، پاکستان کی تشکیل و تعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی ہی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پڑے گی۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت و فطانت اس بارِ عظیم کو آسانی سے برداشت کر لے گی، اور اس کے بہ ظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے طے کر لے گی۔“
قائد! یہ تو آپؒ نے اپنے وہی الفاظ دُہرا دیے ،جو آپؒ نے 18اگست 1947کو عید کے موقع پر کہے تھے۔ لیکن آج بھی اتنے برس گزر جانے کے بعد یہ سب کتنا درست لگ رہا ہے۔ میں آپؒ کے یہ الفاظ اپنے سب پڑھنے والوں تک سمجھنے کی کوشش کی درخواست کے ساتھ پہنچا رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ دن
۲۶ دسمبر ۲۰۱۳ء