احمد جلیل ۔۔۔ ہیں لمحے لمحے کو ازبر نصاب یادوں کے

ہیں لمحے لمحے کو ازبر نصاب یادوں کے
میں بھولتا ہی کہاں ہوں حساب یادوں کے

جہاں سے گزرا تھا وہ قافلہ بہاروں کا
وہاں پہ بکھرے ہیں اب بھی گلاب یادوں کے

ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ایک ہی موسم
برستے رہتے ہیں ہر دم سحاب یادوں کے

گئی رتوں کا مرے چاروں اور میلہ ہے
اُلٹ دیئے ہیں یہ کس نے نقاب یادوں کے

وہ جاتے جاتے مجھے یہ پیام دے کے گیا
ہمیشہ رکھنا ان آنکھوں میں خواب یادوں کے

ہمارا رابطہ رہتا ہے مستقل ان سے
جبھی تو وَا سدا رہتے ہیں باب یادوں کے

اُترتے رہتے ہیں دل پر جلیل ہر لحظہ
صحیفے درد کے بن کر عذاب یادوں کے

Related posts

Leave a Comment