اسحاق وردگ ۔۔۔ پسِ غبار مجھے اس طرف کو جانے دے

پسِ غبار مجھے اس طرف کو جانے دے
نگاہ دار! مجھے اس طرف کو جانے دے

فلک کے خاص رسالے میں کاش چھپ جائے
یہ اشتہار ’’مجھے اس طرف کو جانے دے‘‘

طلسمِ وقت کا زندان توڑنا ہے مجھے
رہِ فرار! مجھے اس طرف کو جانے دے

گلِ مراد خزاں سے بکھر نہ جائے کہیں
پئے بہار مجھے اس طرف کو جانے دے

ہے میرا ذوقِ تجسس کہ اس طرف کیا ہے؟
بس ایک بار مجھے اس طرف کو جانے دے

میں کائنات کی حد سے نکلنا چاہتا ہوں
فسونِ یار! مجھے اس طرف کو جانے دے

میں دیکھ سکتا نہیں گرد میں نظارے کو
مرے غبار! مجھے اس طرف کو جانے دے

متاعِ عشق ہے گروی مرے پلٹنے تک
جمالِ یار! مجھے اس طرف کو جانے دے

مری دعا ہے خرابے کے اس طرف جائے
یہی پکار … ’’مجھے اس طرف کو جانے دے‘‘

Related posts

Leave a Comment