اقبال سروبہ ۔۔۔ طویل رات تھی دل کا دیا بجھا ہوا تھا

طویل رات تھی دل کا دیا بجھا ہوا تھا
ہوا رکی ہوئی تھی وقت بھی رکا ہوا تھا

میں خالی ہاتھ چلا تھا تو مجھ کو یاد آیا
جو میرے پاس تھا سب کچھ ترا دیا ہوا تھا

میں جانتا تھا مرے دوست تو نہیں میرا
ترا مزاج کسی اور سے ملا ہوا تھا

ہماری قبر پہ اک شاخ بھی ہری پڑی تھی
اگر ہو یاد تجھے پھول بھی کھلا ہوا تھا

تمہیں ہو یاد کہ اک شاخ سبز تھی جس پر
تمہارے آنے سے اک پھول بھی کھلا ہوا تھا

یہاں میں جس کیلئے لڑ رہا تھا لوگوں سے
وہ شخص دے کے مجھے درد پھر جدا ہوا تھا

کوئی بھی شخص جدا ہو کے مر نہیں پاتا
یہ جملہ ہجر کی دیوار پہ لکھا ہوا تھا

کئی دنوں سے جو اقبال سو نہیں پایا
میں اپنی نیند کی وحشت سے ہی ڈرا ہوا تھا

Related posts

Leave a Comment