اعجاز گل

 

کُھلی آنکھوں سے دیکھا خواب خوش منظر لگا ہے
شب ِ غفلت تماشاے عبث سے ڈر لگا ہے

سمیٹے حجمِ انسانی نے طول و عرض سارے 
وہ نکلا قد کہ جا کر آسماں میں سر لگا ہے

کوئی سنتا نہیں اچھی خبر لیکن بری سی 
پہنچتی شرق و غرب ایسے ہے، گویا پر لگا ہے

کہیں کاغذ پڑا دیکھا تو سمجھے خط کسی کا 
ہوئی آہٹ برونِ در تو نامہ بر لگا ہے

تھا حرفِ مدعا انکار کی آتش میں غلطاں
جو نکلا کیمیا ہو کر تو شعرِ زر لگا ہے

وہ دیکھا حسنِ نسیاں برد در طاقِ خزانی
جو یادوں میں گل و گلزار سا ازبر لگا ہے

اگر کنکر اچھالا اور پوچھا اس سے ہے تو
جواب اثبات میں دھپ سے مجھے آ کر لگا ہے

نہ وہ پہلے سی سورج کی سنہری دھوپ نیچے 
نہ میلہ چاند تاروں کا کہیں اوپر لگا ہے

نہ جانے دے مگر واپس کسی کو حرصِ دنیا
نگر سب کا صدا دیتا ہے، پیچھے گھر لگا ہے

نہ بچے ہیں وطن جیسے نہ اُن گلیوں کے پتھر 
نہ آنگن میں شجر ویسا ثمر آور لگا ہے

Related posts

Leave a Comment