اقبال سروبہ ۔۔۔ بظاہر اور ہی کچھ تھا رُخِ انوار کا موسم

بظاہر اور ہی کچھ تھا رُخِ انوار کا موسم
نظر کو کر گیا حیراں پِس دیوار کا موسم

چراغِ طُور بن کر یہ ترے افکار چمکیں گے
کبھی تو یاد آئے گا ترے کردار کا موسم

کبھی روٹی، کبھی چادر، کبھی گردابِ ہستی میں
بڑا ہی تلخ ہوتا ہے یہاں فنکار کا موسم

غموں کی دُھوپ، ظلمت، بے نوا یادوں کی تنہائی
بڑی مُدّت تلک ٹھہرا ترے انکار کا موسم

یہی اِک فلسفہ اقبال ؒ کا، اقبال نے سمجھا
خزاں کی زد پہ رہتا ہے ہمیشہ پیار کا موسم

Related posts

Leave a Comment