امجد بابر

ہجر میں رہ کے تماشا نہیں کرنے والا
تجھ سے کچھ اور تقاضا نہیں کرنے والا

مختلف چیزوں کو اُلٹا کبھی سیدھا کر کے
کام کوئی بھی انوکھا نہیں کرنے والا

نیلے پیلے سے زمانے کے سیہ لوگوں کو
تیرا سورج تو سنہرا نہیں کرنے والا

رات ایسی کہ اندھیروں کو چھپا لیتی ہے
دن کا موسم تو اُجالا نہیں کرنے والا

کتنے ہی رنگ بدلتی ہے زمیں کی حرکت
آسماں کوئی دھماکا نہیں کرنے والا

اپنی مرضی سے عطا کر مجھے جو تُو چاہے
تیرا درویش تمنا نہیں کرنے والا

مجھ کو اُمید نہیں اُس پہ یقیں ہے بابر
وہ جو خوابوں کواُدھورا نہیں کرنے والا

۔۔۔۔۔۔۔

وہاں سے جو نکلا یہاں آ گیا میں
یہ مجھ کو بتاؤ کہاں آ گیا میں

نہ پوچھو مسافت کے بارے میں کچھ بھی
میں گرتا ، سنبھلتا ، رواں آ گیا میں

یہ تیرے اشارے کنائے پہ ہے سب
ارے جب کہا تو میاں آ گیا میں

مجھے فکرِ دُنیا نے کر ڈالا بوڑھا
مگر اُس گلی سے جواں آ گیا میں

تُو بھی میرے آنے پہ خوش کیوں نہیں ہے
کہ جیسے یہاں ناگہاں آ گیا میں

کوئی رستہ دیوار منزل کی درزیں
خرابے کا در ہے جہاں آ گیا میں

Related posts

Leave a Comment