انصر حسن ۔۔۔ تیری باتوں سے بھی خوشبو آتی ہے

تیری باتوں سے بھی خوشبو آتی ہے
اپنا پس منظر بھی یار دِہاتی ہے

مجھ سے گہرا رشتا ہے بربادی کا
میرے گھر یہ بِن پوچھے آ جاتی ہے

کوئی دوڑ رہا ہے پیچھے دنیا کے
اپنے پیچھے دنیا دوڑتی آتی ہے

کتنی شرمیلی ہے لڑکی گاؤں کی
اندھوں سے بھی اپنا آپ چھپاتی ہے

میرے ذہن میں چرخے گھومنے لگتے ہیں
اتنی تیزی سے وہ بات گھماتی ہے

بن جاتا ہے وہ قانون محبت کا
جو کچھ میری شہزادی فرماتی ہے

اس جھگڑے سے ساتھی پیچھے ہٹ جائیں
اپنی ذات سے میرا جھگڑا ذاتی ہے

بعد کسی کے انصر ایسے پھرتا ہوں
جیسے کوئی کونج کہیں کرلاتی ہے

Related posts

Leave a Comment