انصر حسن ۔۔۔ مجھ پہ میرے شہر کے ہر شخص کا احسان ہے

مجھ پہ میرے شہر کے ہر شخص کا احسان ہے
کوئی میری زندگی ہے کوئی میری جان ہے

کس لئے کوئی نگارش میں زمانے کی پڑھوں
بچپنے سے پاس میرے میر کا دیوان ہے

جسم کے زندان سے آزاد کوئی ہو گیا
یار مسجد میں کسی کی موت کا اعلان ہے

رہ رہا ہوں ان دنوں میں ایک ریگستان میں
شہر ہے برباد بستی بھی مری ویران ہے

دل یہ کہتا ہے کہ آئیں گے مسافر لوٹ کر
دل یہ کہتا ہے کہ ملنے کا ابھی امکان ہے

جو ترا طالب نہیں وہ شخص جائے بھاڑ میں
جو ترے کوچے سے باہر ہے، کہاں انسان ہے

کس طرح انصر تمہیں وہ شخص دے گا زندگی
جس کی آنکھوں میں تمہاری موت کا سامان ہے

Related posts

Leave a Comment