آفتاب خان ۔۔۔ عشق گر با وفا نہیں ہوتا

عشق گر با وفا نہیں ہوتا
حسن بھی دیرپا نہیں ہوتا

دل سے جب دل جُدا نہیں ہوتا
ہجر کا مرحلہ نہیں ہوتا

بخت والوں کو ہجر ملتا ہے
درد یہ خود چُنا نہیں ہوتا

ہجر بھی آسمانی تحفہ ہے
یہ سبھی کو عطا نہیں ہوتا

ہجر میں جس قدر سکون ملے
وصل میں وہ مزا نہیں ہوتا

ایسا اُلجھا ہوں اس کی اُلجھن میں
زُلف سے میں رہا نہیں ہوتا

کیوں بھٹکتی ہیں دید کو آنکھیں
تم سے جب رابطہ نہیں ہوتا

جب اُسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں
پاس اُس کا پتا نہیں ہوتا

میں نہ کرتا تباہ خود کو اگر
مجھ میں یوں وہ رچا نہیں ہوتا

اس قدر تلخیاں بدن میں ہیں
زہر سے بھی نشہ نہیں ہوتا

دستکیں چیختی ہی جاتی ہیں
اُس کا دروازہ وا نہیں ہوتا

تم نہ بخیہ گری اگر کرتے
چاک دامن سلا نہیں ہوتا

روبرو آفتاب ہوتا ہے
پھر کوئی دوسرا نہیں ہوتا

Related posts

Leave a Comment