محمد نوید مرزا ۔۔۔ رنگوں کا اک جہاں مرے اندر نہیں کھلا

رنگوں کا اک جہاں مرے اندر نہیں کھلا
خوشبو کے باوجود گُلِ تر نہیں کھلا

لہروں کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا میں
تشنہ لبی میں ، مجھ پہ سمندر نہیں کھلا

اک خواب تھا ، میں جس کو نہ تعبیر دے سکا
ذہنوں پہ منکشف تھا ، زباں پر نہیں کھلا

میں جس پہ دستکوں کے نشاں چھوڑ کر گیا
حیراں ہوں کائنات کا وہ در نہیں کھلا

میں اُس کی جستجو میں رہا ہوں تمام عمر
یہ اور بات مجھ پہ ستم گر نہیں کھلا

Related posts

Leave a Comment