بانی ۔۔۔ شب وہاں تذکرۂ کم ہنراں تھا کتنا

شب وہاں تذکرۂ کم ہنراں تھا کتنا
کیا چمکتا کوئی شعلہ کہ دھواں تھا کتنا

ہم کھنچے بیٹھے تھے شمشیرِ برہنہ کی طرح
ہم پہ اک پھول کا سایہ بھی گراں تھا کتنا

پھر نہ گنجایشِ یک صدمہ بھی ہم تم پہ رہی
ٹوٹتا سلسلہ دونوں پہ عیاں تھا کتنا

دیکھ لی تھی مرے اندر کی سیاہی اس نے
اِک ستارہ مری جانب نگراں تھا کتنا

آنکھ سورج نے چرا لی، تو جبیں پربت نے
کچھ ہوا لے اُڑی، سرمایۂ جاں تھا کتنا

ایک آواز کہ ہونٹوں پہ جمی تھی کب سے
ایک زہراب کہ سینے میں رواں تھا کتنا

بن کے ہم رہ گئے یک قطرہ تلاطم کا ہی جھاگ
ہم کہ پی جائیں گے دریا ہی، گماں تھا کتنا

Related posts

Leave a Comment