حسن عباس رضا ۔۔۔ کتنی ہم لکھ پائے، کتنی بھول گئے

کتنی ہم لکھ پائے، کتنی بھول گئے
لاشیں گنتے گنتے، گنتی بھول گئے

یاد نہیں کب خوابوں کی تدفین ہوئی
دن اور چہلم کیا، ہم برسی بھول گئے

شہرِ وفا میں پیار کا ایسا کال پڑا
اہلِ محبت رسمِ وفا ہی بھول گئے

مائی کلاچی! خبر تو لے اُن بیٹوں کی
مستی میں جو تیری ہستی بھول گئے

جہاں پہ شام انگڑائی لے کر جاگی تھی
ہم وہ گلیاں، اور وہ بستی بھول گئے

حسنؔ! یہاں اِک شہرِ نگاراں ہوتا تھا
کس نے اُس کی مانگ اُجاڑی، بھول گئے

Related posts

Leave a Comment