دلاور علی آزر … وہ ناؤ ڈوب گئی اب کنارہ چل رہا ہے

وہ ناؤ ڈوب گئی اب کنارہ چل رہا ہے
ٹھہر گیا تھا سمندر دوبارہ چل رہا ہے

یہ کس کے خواب میں لَو دے رہی ہے چھب کس کی
یہ کس کی نیند میں کس کا ستارہ چل رہا ہے

کسی نے مجھ سے جو احوالِ واقعی پوچھا
تو میں نے اُس کو بتایا گزارا چل رہا ہے

ابھی تو فیصلہ آیا نہیں محبت کا
ابھی سے کچھ نہ کہو ، استخارہ چل رہا ہے

ابھی تو حفظ مکمل نہیں ہوا اپنا
ابھی تو ہجر کا پہلا سپارہ چل رہا ہے

ٹھہرنا چاہیں بھی ہم تو ٹھہر نہیں سکتے
ہمارے ساتھ زمانہ ہمارا چل رہا ہے

سڑک کے بیچ کہیں ہجر کے علاقے میں
رُکی ہوئی ہے محبت اشارہ چل رہا ہے

یقین ہی نہیں آتا خود اپنی آنکھوں پر
نظر کے سامنے ایسا نظارہ چل رہا ہے

مقام طے شدہ ہوتے ہیں دہر میں سب کے
زمیں پہ پھول فلک پہ ستارہ چل رہا ہے

عجیب لفظ لکھے جا رہے ہیں کاغذ پر
علامتوں کی طرف استعارہ چل رہا ہے

ذرا جدید زمانے کی سائیکی سمجھو
سخن کو نعرہ بناؤ کہ نعرہ چل رہا ہے

مٹا ہی دے گی اجل لوح سے ہمیں آزر
جہاں میں نام کوئی دن ہمارا چل رہا ہے

Related posts

Leave a Comment