سعدیہ بشیر ۔۔۔ جس محبت نے تجھ کو تحرک دیا ، وہ محبت مجھے مضحمل کر گئی

جس محبت نے تجھ کو تحرک دیا ، وہ محبت مجھے مضحمل کر گئی
روشنی معتبر مجھ کو کرتی بھی کیا، زندگی تو سراپا ہی دل کر گئی

اس کی خاموشیوں نے وہ سب کہہ دیا ، جس کو کہنے سمجھنے میں عمریں لگیں
اک جدائی تحیر میں ساکت رہی، یاد رخصت ہوئی تو نہ مل کر گئی

خواب رستوں پہ بیجوں کی سوداگری،بانجھ تھی اور پھر بانجھ ہی رہ گئی
سچ کے عنصر کی نشونما رک گئی ، اب کے جدت سبھی مبتدل کر گئی

چاند آنگن میں تھا،اس پہ کچھ داغ تھے،کس تیقن سے پھر بھی چمکتا رہا
روشنی پھیلتی اور سمٹتی رہی ، خواب گہ کے دریچے بھی سل کر گئی

کیسی نظمیں کہیں کیسے مصرعے کہے ہم غزل میں ڈھلے
اس قبیلے کی جادو گری کیا کہیں ، ایک جھلمل چھڑی معتدل کر گئی

Related posts

Leave a Comment