سید آل احمد ۔۔۔ خزاں میں غم ذرا کچھ کم کیا کر

خزاں میں غم ذرا کچھ کم کیا کر
بہاروں میں بھی آنکھیں نم کیا کر

دلوں میں قید کر رکھا ہے جن کو
وہ باتیں بھی کبھی باہم کیا کر

تمنا ہے کہ زہری چپ کے گیسو
لبوں کے دوش پر برہم کیا کر

ہر آنگن میں سحر کب بولتی ہے
سکوتِ شام کا دُکھ کم کیا کر

تعلق خواب ہے قدرت نہیں ہے
شکستِ دل کا مت ماتم کیا کر

کہیں بہتر ہے جابر سے بغاوت
سرِ تسلیم یوں نہ خم کیا کر

حرارت ڈھونڈ مت مہتابِ جاں میں
لحد پر دن کی اب ماتم کیا کر

زمانہ نفرتیں بھی بانٹتا ہے
زمانے سے محبت کم کیا کر

کبھی دل کو سلگتی دوپہر کر
لہو کی لَو کبھی مدھم کیا کر

معافی دے دیا کر دوستوں کو
تبسم زیر لب پیہم کیا کر

Related posts

Leave a Comment