شاہد فرید ۔۔۔ دوا ہے نے کوئی چارہ گری ہے

دوا ہے نے کوئی چارہ گری ہے
دعائوں میں نجانے کیا کمی ہے

جہاں میں نے بہت مدت گزاری
وہی اک شہر مجھ سے اجنبی ہے

بظاہر مسکراتا ہے وہ چہرہ
مگر، آنکھوں میں ٹھہری جو نمی ہے

اسیری سے رہائی ہو مبارک
مگر مشکل بہت یہ زندگی ہے

وہی دنیا سمیٹے پھر رہے ہیں
جو کہتے ہیں یہ دنیا عارضی ہے

اسی پر شہر سارا مر مٹا ہے
تمھارے حُسن میں جو سادگی ہے

زمانے میں دیے بانٹے ہیں جس نے
اُسی کے گھر میں ہرسو تیرگی ہے

سمجھ اب کچھ نہیں آتا ہے شاہد
عجب افسردگی ہے ، بے بسی ہے

Related posts

Leave a Comment