شاہد ماکلی

 

کتابوں میں نظر انداز تھے کتنے زمانوں سے
نکل آئے ہیں کردار اپنی اپنی داستانوں سے

تنفس کے لیے سامانِ دعوت ہر طرح کا ہے
دھوئیں کے ساتھ اٹھتی ہے مہک بھی قہوہ خانوں سے

کبھی حاصل سے بھی لاحاصلی کی یاد آتی ہے
مہک جنت کی آتی ہے مجھے گندم کے دانوں سے

گل ِمحشر کا کھلنا ہے سمے کا منقطع ہونا
تم آتے ہو تو کٹ جاتا ہے دل تینوں زمانوں سے

زمانہ ہر جگہ محتاج ہے سورج کی کرنوں کا
خلا میں کشتیاں چلتی ہیں شمسی بادبانوں سے

کہیں شعلے سے حدت،برف سے ٹھنڈک نچوڑی ہے
کہیں حیرت کو منہا کر دیا آئینہ خانوں سے

یہ لاوا دل میں پھٹ کر کنجِ عافیت ہوا مجھ کو
سمندر میں جزیرے بن گئے آتش فشانوں سے

گلِ موجودگی کھِلتا نہیں ماضی کے ملبے پر
مرا جغرافیہ مت پوچھیے تاریخ دانوں سے

زمیں تھی بے خبر اُس کائناتی آنکھ سے شاہد
جو نگرانی ہماری کر رہی تھی آسمانوں سے

Related posts

Leave a Comment