جمیل یوسف ۔۔۔ رافی

رافی
۔۔۔۔
برگِ گُل سے بنائی مورت ہو
ہائے تم کتنی خوبصورت ہو

میرے احساس کی تجلی ہو
میرے وجدان کی بشارت ہو

نبضِ ہستی کو جو رواں رکھے
تم مرے خوں میں وہ حرارت ہو

میں جسے آج تک سمجھ نہ سکا
تم محبت کی وہ بجھارت ہو

میرے فکر و خیال کی رفعت
میرے جذبات کی طہارت ہو

شعر و عرفاں کی روشنی ہو تم
کس قدر خوشنما عبارت ہو

دھیان جس کا طواف کرتا ہے
دل کی نگری میں وہ زیارت ہو

دل کو پھر زندہ کر دیا جس نے
اک نئی صبح کی بشارت ہو

مجھ کو لے لیتا ہے جو بانہوں میں
ایک ایسے شجر کی صورت ہو

اس کا ادراک تم کو کیا ہو گا
میرے ادراک کی ضرورت ہو

جس کے معنی کو میں سمجھتا ہوں
حُسنِ اظہار کی وہ صورت ہو

جس کی تشنہ لبی نہیں جاتی
شوقِ دیدار کی وہ حسرت ہو

زندگی کی فریب کاری سے
بچ نکلنے کی ایک صورت ہو

Related posts

Leave a Comment