گزر جانے کا موسم آ گیا ہے
اُدھر جانے کا موسم آ گیاہے
گرفت اپنے بدن پر کھو رہا ہوں
بکھر جانے کا موسم آ گیا ہے
اجازت ہو تو خود کو ساتھ لے لوں
اگر جانے کا موسم آ گیا ہے
مجھے کہنا پڑا ہے فاختہ سے
کہ گھر جانے کا موسم آ گیا ہے
بدن سے زندگی کی راکھ جھاڑو
نکھر جانے کا موسم آ گیا ہے
ہزاروں خواہشیں زندہ ہیں دل میں
مگر جانے کا موسم آ گیا ہے
جمیل اس سمت کا سوچا نہیں تھا
جدھر جانے کا موسم آ گیا ہے