صہیب اکرام … خواب سے اور آئینے سے دور ہوں

خواب سے اور آئنے سے دور ہوں
جیسے میں ہر مسئلے سے دور ہوں

خوب دِکھتا ہے جہاں سے یہ سماں
میں ذرا اِس زاویے سے دور ہوں

بس یہ کچھ ہونے کا ڈر جاتا نہیں
ویسے میں ہر واہمے سے دور ہوں

آپ ہی کہیے جنوں کا کیا کریں
میں تو اب اس مخمصے سے دور ہوں

اے زمیں گردش سے فرصت  ہو تو دیکھ
میں ترے اس دائرے سے دور ہوں

آئیے، کار مشقت کیجیے
میں بقا کے سلسلے سے دور ہوں

خود سے باہر آ گیا ہوں اور اب
ہر برے سے، ہر بھلے سے دور ہوں

Related posts

Leave a Comment