صہیب اکرام ۔۔۔ گزشتگاں مرے آئندگاں سے ہٹ کر تھے

گزشتگاں مرے آئندگاں سے ہٹ کر تھے
جو شہر گم ہوئے وہ رائگاں سے ہٹ کر تھے

چمک رہے تھے سرِ آب جو، سمیٹ لیے
مگر وہ عکس جو آبِ رواں سے ہٹ کر تھے

سرشت بدلی ہے میری نہ ریگِ صحرا کی
ہم اپنی موج میں تھے اور مکاں سے ہٹ کر تھے

مرے ہی ذوقِ نمائش کی سب خرابی ہے
وگرنہ رنگ تو اس خاکداں سے ہٹ کر تھے

فنا کی موج سے ہم ایسے بھی ہوئے سرشار
جو کہنے کو کسی سود و زیاں سےہٹ کر تھے

قریب  تھا کہ میں جا ملتا ان ستاروں میں
مگر وہ گردِ رہِ کارواں سے ہٹ کر تھے

Related posts

Leave a Comment