عقیل رحمانی ۔۔۔ عمر ساری مجھے کانٹوں کی قبا لگتی ہے

عمر ساری مجھے کانٹوں کی قبا لگتی ہے
زندگی لغزشِ آدم کی سزا لگتی ہے

مرتے دم تک نہیں بھولی تیرے آنچل کی مہک
ماں ترے دودھ کی تاثیر جُدا لگتی ہے

آم کے پیڑوں پہ بُور آئے تو پردیس میں بھی
ڈھونڈتی پھر مجھے کوئل کی صدا لگتی ہے

بقچیاں نیکی کی چوراہے پہ کھل جاتی ہیں
جب بھی کردار کو شہرت کی وبا لگتی ہے

روشنی دیتا ہے پھر میرے بجھے دل کا چراغ
جب مجھے کوچۂ جاناں کی ہوا لگتی ہے

چھوڑ جاتے ہیں جو گھر ان کے مقفل در کو
دستکیں دینے سے پھر رنگِ حنا لگتی ہے

کھلتی ہے صحنِ چمن میں جو کوئی تازہ کلی
مجھ کو اس شوخ کی رنگین ادا لگتی ہے

جن کے سینے پہ کھدے نام مہکتے ہیں عقیل
ان درختوں کو محبت کی دعا لگتی ہے

Related posts

Leave a Comment