فرحت عباس ۔۔۔ ہر ایک شخص وبائیں اُٹھائے پھرتا ہے

ہر ایک شخص وبائیں اُٹھائے پھرتا ہے
طرح طرح کی بلائیں اُٹھائے پھرتا ہے

یہ کیسا خوف ہے دنیا پہ آج چھایا ہوا
کفن فروش قبائیں اُٹھائے پھرتا ہے

خدائے پاک کا ہم پر کرم ہے ہر لمحہ
ہمیں جو بائیں سے دائیں اُٹھائے پھرتا ہے

فقیرِ راہ دعاؤں کی شکل میں اب بھی
طرح طرح کی دوائیں اُٹھائے پھرتا ہے

غریبِ شہر پہ رحمت خدا ہی فرمائے
دعا کو اپنی ردائیں اُٹھائے پھرتا ہے

ہوائے دشتِ قضا سر بسر ہے عالم میں
ہجوم پھر بھی قبائیں اُٹھائے پھرتا ہے

ہماری سوچ بھی اک لاش ہے کہ وقت جسے
جدھر جدھر کو بھی جائیں، اٹھائے پھرتا ہے

بس ایک درد کا مارا، زمین زادہ بھی
زمیں کی ساری بلائیں اُٹھائے پھرتا ہے

اسے خبر ہے کہ مقتل میں مارا جائے گا
مگر وہ پھر بھی صدائیں اُٹھائے پھرتا ہے

Related posts

Leave a Comment