مظفر حنفی ۔۔۔ ہر طرف گرداب ہے یا موجِ خود سر اور ہم

ہر طرف گرداب ہے یا موجِ خود سر اور ہم
آج کل ہے ذات کا گہرا سمندر اور ہم

کھل گیا سب کو ہمارا آئینے جیسا وجود
ہر تماشائی کے ہاتھوں میں ہے پتھر اور ہم

جسم میں شہہ رگ ہماری یوں کھٹکتی ہے کہ بس
کیسے ہم رِشتہ ہوئے ہیں نوکِ خنجر اور ہم

وسعتیں آواز دیتی ہیں کہ موقع ہے یہی
حسرتِ پرواز ہے ، ٹوُٹے ہوئے َپر اور ہم

آمدِ محبوب پر غالبؔ کی حیرت یاد ہے
یہ بھی قدرت ہے خدا کی ، آپ کا گھر اور ہم

آنسوؤں کا ہر خزا نہ لُٹ گیا ، یادش بخیر
تھے کبھی ہمراز و ہمدم ، دیدۂ تر اور ہم

تجرباتِ باہمی سے جوڑ لیتے ہیں غزل
رات کو مِل بیٹھتے ہیں جب مظفرؔ اور ہم

Related posts

Leave a Comment