میر تقی میر ۔۔۔ دیکھے گا جو تجھ رُو کو سو حیران رہے گا

دیکھے گا جو تجھ رُو کو سو حیران رہے گا
وابستہ ترے مُو کا پریشان رہے گا

منعم نے بِنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا

چھوٹوں کہیں‌ ایذا سےلگا ایک ہی جلاد
تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا

چمٹے رہیں گے دشتِ محبت میں سر و تیغ
محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

دل دینے کی ایسی حَرَکت اُن نے نہیں کی
جب تک جیے گا میر پشیمان رہے گا

Related posts

Leave a Comment