نسیمِ سحر ۔۔۔ مُجھ کو پناہ دے کے جو گیلا درخت ہے (ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)

مُجھ کو پناہ دے کے جو گیلا درخت ہے
اللہ کے کرم کا وسیلہ درخت ہے

لہجوں میں کاش ذائقہ اُس کا بھی آ سکے
جو میٹھی چھاؤں دیتا رَسِیلا درخت ہے

مَیں آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا تو ہوں
لیکن در اصل میرا قبیلہ درخت ہے

کوئی وہاں پڑاؤ نہیں ڈالتا کبھی
موجود جس زمین پہ نیلا درخت ہے

اُس شاخِ گُل نے دیکھ کے بے ساختہ کہا
کیسا جوان، چھَیل چھبیلا درخت ہے !

بے حد قریب رات کی رانی کھِلی ہوئی
خوشبو میں مست مست، نشیلا درخت ہے

اِتنا غُبار پھیلا ہوا تھا فضاؤں میں
کچھ یوں لگا، وُہ ریت کا ٹیلہ درخت ہے

میرے بدن کی کھال بھی اُس نے اُتار دی !
رندے سے جب کسی نے بھی چھیلا درخت ہے

وہ منتقل نہ سایہ نشینوں میں ہو کہیں !
جس زہر میں بُجھا ہوا نیلا درخت ہے

چڑیوں کے بولنے کی صدائیں تھیں وہ نسیم
اور مَیں سمجھ رہا تھا، سُریلا درخت ہے

Related posts

Leave a Comment