واجد امیر ۔۔۔ نہ دوریوں کی خجالت نہ قربتوں میں قریب

نہ دوریوں کی خجالت نہ قربتوں میں قریب
پڑا ہُوا ہے یونہی دل میں دشتِ بے ترتیب

یونہی رہے گی سدا کشمکش تو یوں ہی سہی
ہَوا کا اپنا مقدر ، دیے کا اپنا نصیب

عجیب صحن ہے بارش نہ دھوپ کچھ بھی نہیں
نہ دن ،نہ رات، وہی جھٹ پٹے کے سائے مہیب

نہ کچھ بُرائی مکمل ، نہ خیر میں کامل
ہوئی خراب کہاں خیر و شَر کی یہ ترتیب

سُنانے والا کوئی اور نہ سُننے والا کوئی
ہم آپ اپنے مخاطب، ہم آپ اپنے خطیب

پڑا تھا نسلوں میں رخنہ جو حملہ آوروں کا
ملی تھی ورثے میں یوں بھی لُٹی پُٹی تہذیب

Related posts

Leave a Comment