امجد اسلام امجد ۔۔۔ منظر کیسے بدل سکے!

منظر کیسے بدل سکے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اِرد گرد اور قدم قدم پہ نت نئے ، سوال ہی سوال ہیں
کہ جن کا شجرۂ نسب ہے دُور تک رواں دواں
اُس ایک پَل کی موج میں
کہ جس میں ایک جا ہوئیں زماں مکاں کی وسعتیں
اور اُس کے بعد چل پڑا
یہ اجنبی سا سلسلہ ، سوال اور خیال کا
فروغِ زخم جستجو اور اس کے اندمال کا
گئی رُتوں کی کھڑکیوں سے جھانکتے ملال کا

ابھی کسی سوال کا جواب ڈھونڈنے پہ ہم
نہ لے سکے تھے اک سکوں کا سانس بھی
کہ اَن گنت سوال اس جواب سے نکل پڑے
تھکن ابھی مٹی نہ تھی کہ پھر سے لوگ چل پڑے

سفر میں ہر مقام پر نظر نظر سوال ہے
جو ابتدا میں تھا وہی پھر آج دل کا حال ہے
طرح طرح کے وسوسوں میں خواہشوں کے سائے ہیں
کہ واہموں نے جن کے گرد مورچے لگائے ہیں

اور اس عجب سے کھیل ہی
کے درمیاں ہے زندگی
نصاب جس کا طے نہیں
وہ امتحاں ہے زندگی

Related posts

Leave a Comment