فہمیدہ ریاض ۔۔۔ شہر والو سنو

شہر والو سنو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بریدہ زباں شہر میں قصہ گو خوش بیاں آئے ہیں
شہر والو سنو! اس سرائے میں ہم قصہ خواں آئے ہیں
شہرِ معصوم کے ساکنو! کچھ فسانے ہمارے سنو
دُور دیسوں میں ہوتا ہے کیا،ماجرے آج سارے سنو
وہ سیہ چشم،پستہ دہن،سیم تن، نازنیں عورتیں
وہ کشیدہ بدن، سبز خط ، خوش قطع، ماہ رُو نوجواں
اور وہ جادوگری ان کی تقدیر کی
وہ طلسمات، سرکار کی نوکری
ایک انوکھا محل
جس سے گزرا تو ہر شاہزادے کا سر خوک کا بن گیا
درس گاہوں میں وہ جوق در جوق جاتے ہوئے نوجواں
وہ تبسم فشاں ان کی پیشانیاں ہائے کھوئیں کہاں
آن کی آن میں پِیر اتنے ہوئے
ضعف سے ان کی مژگاں تلک جھڑ گئیں
جسم کیا روح پر جھریاں پڑ گئیں
اور وہ شہزادیاں
کچی عمروں میں جو سیر کرنے گئیں
باغ کا وہ سماں
عشق کے پھول کھلتے ہوئے دُور تک ریشمی گھاس میں
وہ فسوں ساز خوشبو بھٹکتی ہوئی ان کے انفاس میں
افسروں اور شاہوں کی آغوش میں
ان کے نچلے بدن کیسے پتھرا گئے

وہ عجب مملکت
جانور جس پہ مدت سے تھے حکمراں
گو رعایا کو اس کا پتہ تک نہ تھا
اور تھا بھی تو بے بس تھے ، لاچار تھے
ان میں جو اہل ِ دانش تھے مدت ہوئی مر چکے تھے
جو زندہ تھے، بیمار تھے

کچھ عجب اہل ِ فن بھی تو تھے اس جگہ
سامری سِحر سے روگ میں مبتلا
خلعتِ شاہ تھی ان کی واحد دوا
پیشتر قابِ سلطان کے خوشہ چیں
گیت لکھتے رہے گیت گاتے رہے
عہدِ زرّیں کے ڈنکے بجاتے رہے

کن وزیروں سے ان کی رقابت رہی
اور کام آئی کس کس کے جادو گری
شاہ کا جب کھٹولا اڑایا تو پھرکیا ہوئی وہ پری؟

جمع کرتے تھے ہم ایک رنگیں فسانہ، عجب داستاں
آستینوں میں دفتر نہاں لائے ہیں
شہر والو سنو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment