موئن جو دَڑو کی بلندی سے طلوع ہوتی نظم ۔۔۔۔۔۔۔ خالد احمد

ہم تو مردے ہیں!
یہ مردوں کا ٹیلہ ہے!
اِس ٹیلے کے سائے سے بھی دور،بہت پستی میں
زندہ لوگ دیار بسائے پھرتے ہیں!
اِن زندہ لوگوں نے ، ہم مردہ لوگوں سے
اپنے ربط بھلا کے مستقبل کے ہاتھ میں ہاتھ تو ڈال دیے!
مستقبل کے خلا میں پائوں جمالینے کی ٹھان تو لی!
لیکن بھول گئے!
مستقبل تو حُسنِ کشش سے خالی،طرفہ بے وزنی کا عالم ہے!
ہم تو اپنے سروں کو بھنچے ہوئے ہاتھوں میں سجائے،
مڑے ہوئے گھٹنوں میں دیے!
بچوں کی طرح مٹی کے گھڑوں میں بیٹھے ہیں!
گویا صُور کے پھنکتے ہی!
خاک میں جان کے پڑتے ہی!
ٹانگیں مار کے ان مٹی کے گھڑوں سے ہم،یوں نکلیں گے!
جیسے ہمیں اس دھرتی کی شق ہوتی ہوئی مٹی نے جنا ہو!
گویا، ہم اس مٹی کے وہ بیٹے ہیں!
جن کو حساب طلب کرنے والوں کے آگے اک فریاد گزارنا ہو!
اپنا حساب تو ہم دیں گے!
ایک حساب تمھیں دینا ہوگا!
تم جو زندہ بنتے ہو!
تم جو مستقبل کے تیرہ و تار خلا میں
پائوں جما لینے کی فکر میں ہو!
ہم کو، زندوں سے وہ مردے، اچھے کیوں نہ لگیں ؟
وہ جو ہمارے بیٹے تھے!
وہ جو تمھارے آبا تھے!
جن کی طرف سے جانے والی سبز ہوائوں میں
ٹھنڈک بستی تھی
وہ خوش قسمت سبز ہوائیں،
جن مِںہمارے اور تمھارے آقا ؐ نے
وہ ٹھنڈک دیکھی!
جس ٹھنڈک کے عوض
آج تم ان کے اُمّتی ٹھہرے ہو!
لیکن بھول گئے!
اک دن مردے زندہ ہونا ہیں!
ہم تو مردے ہیں!
یہ مردوں کا ٹیلا ہے!
حسنِ کشش سے خالی یہ دنیا!
کتنی کشش کی حامل ہے!
ہم سے آنکھیں چار کرو!
ہم ہی تمھارا ماضی ہیں!
ہم ہی تمھارا مستقبل!

Related posts

Leave a Comment