ڈاکٹر وقار خان … تخلیق اور مبشر سعید کی خواب گاہ میں ریت

تخلیق اور مبشر سعید کی خواب گاہ میں ریت 

تخلیق فکر کا نام ہے اور فکر کسی مخصوص یا غیر مخصوص سوچ کے زیرِ عمل ترتیب شدہ عوامل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ، اب تخلیق گویا سوچ کا نام ہے اور سوچنا ایک مشکل مرحلہ ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں، غلط یا صحیح سوچ کا فیصلہ بعد کا ہے لیکن سوچ کا عمل جاری رہتا ہے چاہے شعور اور لاشعور تک کی پہچان نہ رہے، سوچتا تو میں بھی ہوں اور آپ بھی ، ہر وہ شخص سوچتا ہے جو ذہن رکھتا ہے، اب اسے چاہے علم ہو یا انجان ہو وہ کسی نہ کسی حوالے سے سوچ میں مشغول ضرور رہتا ہے، یہ سوچنا تخلیق کی بنیادی ضروریات میں سے ہے ، تخلیق کو لکھنے لکھانے اور شعر و نثر یا فنون ِلطیفہ تک بھی محدود نہیں کیا جا سکتا، جو کوئی سوچتا ہے گویا وہ تخلیق کار ہے لیکن اسے ادراک ہے یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے، وہ کوئی تو تھا جس نے گفتگو کے اشاروں کا استعمال کیا ، یقیناً وہ تخلیق کار تھا، سروں میں الفاظ کو ڈھالنا تخلیق ہے، منظر کو رنگوں سے واضح کرنا تخلیق ہے ، زبان سے نکلنے والا پہلا شبد اور لاشعور سے شعور اور آنے والے پہلے خیال کا ادراک تخلیق تھا، تخلیق تو وہ بھی ہے جو مکڑی اپنا جال بنتی ہے، بنت جال کی ہو یا الفاظ و خیالات کی وہ اس قدر مضبوط ہو کہ وہ اپنے حصار سے نکلنے والے کو اپنے اندر کی قوت کا اعتراف کروا دے، وہ کوئی تو تھا جس نے سب سے پہلے لکھنے کا عمل اور پھر اس عمل کو خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، خیالات کو خیال کا نام دینے والے نے بھی سوچ کا سفر طے کر کے اسے نام دیا ہو گا اور نام کی ایجاد بھی کیا غضب کا واقعہ ہو گی جس نے سب سے پہلے کسی شے کو کسی نام سے پکارا ہو گا ، تخلیق پر بات کرتا جاؤں تو تخلیق ہر اس عمل اور نظام کو اپنے اندر سمو لے جو سوچا اور جانا جا سکتا ہے.
خواب گاہ میں ریت…
خواب تو زادِ سفر ہوتے ہیں…
خواب دیکھنا بھی عجب قیامت ہے، زندگی خواب گاہ ہو تو خواب دیکھنا بھی غنیمت ہے اس سے بڑھ کر تکلیف دہ خواب گاہ میں خواب کا نہ آنا ہو گا، ایک جگہ جو کسی شخص کے لیے مخصوص کی ہو وہ ہی اس جگہ نہ آئے تو رائیگانی عجب کیفیت لاتی ہے ، بات کسی اور سمت جانے لگی ہے ، خیر خواب گاہ میں ریت اور مبشر سعید…
بنے بنائے ضابطوں کو توڑنا آسان ہے لیکن ان ضابطوں اور پابندیوں کی حد میں رہ کر نئے زاویے دریافت کرنا کارنامہ کہلاتا ہے اور مبشر سعید نے روایت کی مشکلات کو قبول کرتے ہوئے اپنا کام اس خوبصورتی سے نبھایا ہے جس پر تخلیق مطمئن ہو ، اگر پابندیاں نہ ہوں تو اناڑی اور فنکار میں فرق خاک ہو گا، اناڑی پن سے قاعدوں کو توڑنا بہت ہی آسان بات ہے اور اپنے فن کے زور پر قاعدوں میں سے نئے زاویے نکالنا فن ہے اور وہ بھی وہاں جہاں قاعدوں کو فنکار کی ضرورت محسوس ہو۔
مبشر سعید کی شاعری رومان سے الگ نہیں لیکن یہ رومانی مزاج اگر صرف اس طرح کی خود فریبی آمیز جرات مندی اور سطحی جذبات کی عکاسی تک ہوتا تو مبشر سعید کی شاعری دوسرے برائے نام شعراء کی طرح خالی پن کا احساس لیے ہوتی لیکن اس رومان اور عشق کے رموز نے مبشر سعید کو حیات و کائنات کے ان مسائل کی طرف متوجہ کیا جن کا ذکر ہمارے نقاد گول مول الفاظ میں کر جاتے ہیں،بھئی ماننا ہے تو دل سے قبول کر لو نہیں ماننا تو کسی کے شاہکار کو ہی رد کر دو کیونکہ ایک نقاد صرف ایک فردِواحد کی حیثیت سے اپنی رائے دے رہا ہوتا ہے اور اس سے بھی انحراف نہیں کہ رائے غلط بھی ہو سکتی ہے، مبشر سعید کے رومانی مزاج کا خاصہ یہ ہے کہ ایک طرف تو خود ترحمی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اپنی ذات سے منسوب ذات کے سحر میں اپنی کیفیات کا اس طرح اظہار کرتا ہے گویا وہ اپنے اندر ہی اپنے محبوب کو سمو چکا ہے اور دوسری طرف اس میں اخلاقی جرات بھی ہوتی ہے جو اسے نہ صرف سوالوں پر اکساتی ہے پوچھنے اور مختلف پہلو چھیڑنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ اس ذاتی حدود میں محصور کیفیت کو دبائے بھی رکھتی ہے اور نہ صرف خارجی امور کے رموز کو وضع کرتی اور بیان کرتی ہے بلکہ مابعدالطبیعاتی عوامل کی طرف بھی ایک معصومانہ حیرت سے دیکھتی ہے جو انجان تو نہیں لیکن تحیر کی طرز میں مختلف سوالات کو اٹھانے میں کردار ادا کرتی ہے.

کسی کا قْرب قیامت سے کم نہیں تھا سعید
فقط فراق کو ہم امتحاں سمجھتے تھے
..تجھ کو معلوم ہے درویش نگاہوں والی!
ہم تری دید کو ملتان سے آئے ہوئے ہیں
……
اک عجب عالمِ حیرت میں چلے جاتے ہیں
تیری آواز میں آواز ملاتے ہوئے ہم
……
حسن خوبانِ جملہ عالم کا
سمٹ آیا ہے اْس کی آنکھوں مِیں
حسن آدھا ہے مسکراہٹ مِیں
اور، پورا ہے اْس کی آنکھوں مِیں
رات ، زلفوں مِیں ڈوب جاتی ہے
دن نکلتا ہے اْس کی آنکھوں مِیں
……
میں اگر پھول کی پتّی پہ ترا نام لکھوں
تتلیاں اڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں
……
آپ کی بے مثال آنکھوں پر
ہو اجازت تو شاعری کر لوں
……
پہنا ہے اس نے شوق سے جو پیرہن سفید
دکھنے لگا ہے اور بھی اس کا بدن سفید

وہ جلوہ ہائے حسن دکھاتا رہا مجھے
کھلتا گیا لباس شکن در شکن سفید
……
قیمتی شے کی طرح میں نے سنبھالا ہْوا ہے
تیری پوشاک کے رنگوں سے چرایا ہْوا رنگ
……
الفت ترا وجود ہے ، الفت مرا وجود
کر اس کا اعتبار ، مرے ساتھ ساتھ چل
وہ حسن بڑی دیر رہا سامنے مرے
جس درجہ اْسے دیکھنا چاہا ، اْسے دیکھا
منظر وہ مری آنکھ سے جاتا ہی نہیں ہے
اک روز دریچے سے میں جھانکا ، اْسے دیکھا
……
جسم کو جسم سے ملاتا ہوں
روح کی تازگی بڑھاتا ہوں
……
ایک دہلیز پہ کچھ پھول دھرے
اِک دریچے میں سحر چھوڑ آیا
……
یار! دیکھو تو کبھی موسمِ ہجراں کی طرف
خاک ہوتا ہوں یہاں، دشت سجاتا ہوا ، میں
……

جب سے جاگی ہے ترے لمس کی خواہش دل میں
رہنا پڑتا ہے مجھے خود سے کنارہ کر کے
……
تیری صورت جو میں دیکھوں تو گماں ہوتا ہے
تو کوئی نظم ہے جو وجد میں آئی ہوئی ہے
اِک پری زاد کے یادوں مِیں چلے آنے سے
زندگی وصل کی بارش میں نہائی ہوئی ہے
سامنے بیٹھ کے دیکھا تھا اْسے رات کی رات
وہی رات آج بھی اعصاب پہ چھائی ہوئی ہے
……
کیوں محبت کو نہ ہم عشق میں تبدیل کریں
نرم کونپل تھے، گْلِ تر سے نروئے ہوئے ہیں
کل میں نے چاند سے کہا آہستگی کے ساتھ
تم فرد لگ رہے ہو محبت قبیل کے
……
شب کی دیوار گرا دی ہے شفق زادی نے
دھوپ، شہ کار بنا دی ہے شفق زادی نے
لمس کرنوں کا مرے خواب چرا لیتا ہے
کیسی تصویر دکھا دی ہے شفق زادی نے؟
……
منظر نظر آئے مجھے اک جیسا شفق رو
اِس آر ، پری زاد! ہے، اْس پار ، پری زاد!
اعصاب پہ چھایا ہْوا تجھ یاد کا میلا
کرنے لگا مجھ دشت کو گل زار، پری زاد!
……

عارفانہ مزاج اور پھر فقر کے عوامل کا ذکر بھی ان کی شاعری کا خاصہ ہے، اصل معاملہ جو مری عقل سمجھتی ہے وہ یہ ہے کہ نورِ الہیٰ انسان کی روح پر منعکس ہوتا ہے، کبھی لمحہ بھر کے لیے کبھی دیر تک ،اور ایک موقع وہ آتا ہے جب روح اس میں غرق ہو جاتی ہے اور ان تدریجی مدارج کو تجلی کا نام دیا جاتا ہے اور یہ عشق کے بہت بعد کے مراحل میں سے ہے، یہ قسمت کی بات ہے تجلی کس کے نصیب میں ہو دکھانے والا کس پر راضی ہو اور بھروسہ کرے لیکن اس کی خواہش کا اظہار اور اس طلب میں رہنا نصیب کی بات ہے اور یہ کیفیت جب سر پہ سوار ہونے لگے تو ایک حالت جس میں روح تپنے پگھلنے اور ایک نئی ہیئت اور صورت اختیار کر لے، جب جلوہ ا ور عکس ، اصل اور اس کی مثال ایک معلوم ہونے لگیں اور آئینے میں وہ نظر آنے لگے جس کی طلب ہو وہ حالت وجد کہلاتی ہے اور مبشر سعید اس حالت پر بہت پختہ یقین رکھتے ہیں اور ان کے اشعار کو پڑھ کر اس حالت میں جانے کی خواہش تو ضرور ہوتی ہے، میرے بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مبشر سعید صرف رومان اور ذات کی کیفیات تک محدود نہیں وہ اپنے اندر کی کیفیات کو اس طرح سے تربیت کرتے ہیں کہ مکمل نظام پر یقین ہو جائے۔
اسلوب کا مطالعہ بہت اہم چیز ہے اور تنقید کے اصولوں کا تحفظ صرف اس طرح ممکن ہے کہ جن اقدار کو معیار بنایا جائے وہ فنی اقدار کی نشاندہی کرتی ہوں لیکن یہ نشاندہی اسی وقت ممکن ہے جب ان فنی اقدار کی حیثیت تخلیق کار کے فن پارے سے واضح بھی ہو اور اس فن پارے میں موجود بھی۔اب مبشر سعید کے شعری اسلوب اور فنی اقدار پر بات کی جائے تو ان کے پہلے مجموعے سے واضح ہو چکا کہ ان کا راستہ متعین ہے جو ادھر ادھر کی بھاگ دوڑ میں دھیان لگانے والا نہیں ،مبشر سعید میں قوتِ اظہار اور قوتِ تخیل دونوں کی کمی نہیں جو کسی تخلیق کار کی کامیابی کی ذمہ دار ہیں، استعاراتی اور پیکری ذہن رکھنے کے ساتھ ساتھ جزئی صورت حال کا بیانیہ کی صورت میں بھی اظہار کرنا جانتے ہیں،ایسی بھی شاعری نہ ہو کہ جسے پڑھ کر صرف شاعر کی کیفیات کا احساس و ادراک تو ہو لیکن اپنے بارے میں کچھ جان نہ سکیں، ان معنوں میں مبشر سعید کی شاعری اپنی مضبوط انفرادیت اور دروں بینی ،سکّہ بند

تصورات سے بے خوف ہو کر شاعرانہ اظہار کی وجہ سے نمایاں ہے.

اب مرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ میں وجد مِیں لاؤں تجھ کو
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ، ہو کے دکھاؤں تجھ کو؟
……
جو ہمہ وقت لگاتا تھا اَنا الحق کی صدا
وہی مجذوب ابھی ڈھونڈ کے لاؤ ، جاؤ
……
رقص کرتے ہوئے سب ہوش بھلا دیتا ہیں
دیر تک وجد میں رہتا ہے سراپا میرا
……
عشق عبادت کرتے لوگ
جاگیں روز اذانوں تک
……
کشورِ عشق! ترے دشت کے سندر رستے
آنکھ کو بھائے ہوئے، روح پہ چھائے ہوئے ہی
……
عالمِ وجد سے اظہار مِیں آتا ہْوا میں
یعنی، خود خواب ہْوا، خواب سْناتا ہوا میں
عشق میں جراتِ تفریق نہیں قیس کو بھی
تو نے کیوں دشت میں دیوار اٹھائی ہوئی ہے ؟

صبر کا غازہ مرے عشق کی زینت ٹھہرا
سو، میں آنکھوں سے کوئی اشک بہانے کا نہیں
……
دل وہ درویش ،کہ ہر ساعتِ حیرت کے حضور
جب بھی آتا ہے بلا خوف و خطر آتا ہے
اب ذرا دھیان سے کر سامنا اْس کا دنیا!
اب ترے سامنے اک خاک بسر آتا ہے
……
وقت نے عشق کے ملنگوں کو
رکھ دیا دائمی اداسی میں
……
صاحبِ کشف پرندوں کی کہانی کہہ کر
سو گئے آپ درختوں کو سلاتے ہوئے ہم
……
عالمِ غیب سے ملتی ہے ہمیشہ ہی سعید
دشتِ ہجراں کے مکینوں کو دعائے گریہ
……
اگر جلال میں آئیں تو دنیا والوں سے
فقیر، آنکھ سے اوجھل کلام کرتے ہیں
……
جب سرِ خواب سرا وجد کا عالم تھا میاں !
زندگی لوٹ گئی، نام تمھارا لے کر

Related posts

Leave a Comment