بے مہر موسم میں محبت ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر آصف علی قیصر

جب بھی میں کسی دوراہے پر پہنچتا ہوں ہمیشہ دائیں مڑتا ہوں۔ یہ میری عادت ہے مگر اُس شب میری اذیت پسندی مجھے گلی میں فرح کے گھر تک لے گئی۔ میں تیز تیز قدموں سے جو میری دھڑکنوں سے بھی تیز تھے، برقی قمقموں سے دہکتے اُس گھر کے سامنے سے جیسے بھاگ کر گزرا اور اگلے دوراہے سے سیدھے ہاتھ مڑ کرگیا۔ وہاں دنیا نابود ہوئی اور بے کراں وسعت کا حامل ایک سپاٹ میدان مجھے ملا۔
"یہ کیسے ممکن ہے؟ بھلا ایک ثانیے میں تمام دنیا کو زمین کیسے نگل سکتی ہے اور پھر اگلے ہی ثانیے اتنی ہموار اتنی سپاٹ کیسے ہو سکتی ہے؟”
میں نے سوچا اور خواب سے نکلنے کے لیے زور زور سے آنکھیں ملنے لگا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں درمیانی اونچائی کے پہاڑ اُگ آئے جن کے بیچوں بیچ وادی میں ایک خیمہ بستی تھی۔ میں آگے بڑھا اور بستی کے پہلے خیمے کی اوٹ سے سامنے کا منظر نامہ پڑھنے لگا۔ایک نصف دائرے میں نصب سفید خیموں کے بیچوں بیچ مجھے ایک نقرئی خیمہ دکھائی دینے لگاجو بستی کے سردار کا خیمہ تھا۔ اُس وسیع خیمے کے کشادہ دروازے سے اندر کا منظر مجھے دکھائی دینے لگا۔
خیمے کے اندر عین مرکز میں پھولوں سجی مسہری کو بستی کی ساری جوان لڑکیوں نے گھیر رکھا تھا۔ اور مسہری پر عروسی جوڑے میں ملبوس فرح مجھے صاف دکھائی دے رہی تھی۔
"یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟”
میں نے زور سے آنکھیں میچ لیں اور پھر چند ہی ثانیوں بعد پوری طرح کھول لیں۔ خدا کا شکر ہے، دھندلکا چھٹ گیا اور مسہری پر دلہن بنی بیٹھی سردار کی اکلوتی بیٹی کے خد و خال میرے شعور کے پردے پر جگمگانے لگے۔ ذرا غور سے دیکھنے پر مجھے دلہن کے ہونٹوں پر پپڑیوں کی صورت جمی پیاس نظر آئی۔ کچھ ایسا ہی حال اس کے گرد گھیرا ڈالے لڑکیوں کا بھی تھا جن کے حلق پیاس سے خشک ہو چکے تھے۔ اور وہ شادی کے گیت گانے کے قابل نہ رہی تھیں۔ میں نے منظر کی تشنگی سے اکتا کر خیمے سے نظریں ہٹائیں تو مجھے کچھ دور بستی کے تمام مردوں کا اکٹھ دکھائی دیا۔ بلوغت کی عمر سے بڑے سب مرد دائرے کی صورت زمین پر اکڑوں بیٹھے تھے۔ بستی کا سردار ان کے بیچوں بیچ اپنی مسند پر براجمان تھا۔ بستی کا سب سے بوڑھا اور دانا شخص اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا۔ "سردار بستی پر خشک سالی اور قحط کا عذاب تمھاری بیٹی کی وجہ سے اترا ہے۔ ہمارے مویشی مر چکے ہیں اور اب ہمارے بچوں کی باری ہے۔ "مجمع میں بھنبھناہٹ اٹھی تو سردار نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش کروا دیا۔ ” اس لڑکی نے اپنے عم زاد کی محبت ٹھکرا کر دوسرے مرد پر اپنی محبت نچھاور کی، یہ صحیفوں کی تردید اور توہین ہے۔ جس سے ہمارے خدا ہم سے روٹھ گئے اور خشک سالی کا عذاب اترا۔” بوڑھا آدمی اپنے صدیوں کے تجربات سے کشید گیان میں بولتا چلا گیا اور بستی کا ہر مرد بشمول سردار اُس کی بات پر یقین کرتا چلا گیا۔
"اے مردِ دانا!وہ بھلا کیسے؟” سردار نے پوچھا
"اپنے منسوب سے نظریں چرا کر تمھاری بیٹی نے جس مرد کو چاہا ہمیں اس مرد کی زندگی کی بھینٹ اپنے خداوں کے حضور چڑھانا ہو گی۔” مجمعے میں بیٹھا سب سے خوب رو اور وجیہ شخص کسمسا کر رہ گیا۔”ٹھیک ہے، اپنے بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے میں اپنی بیٹی کے محبوب کے لیے موت کا پروانہ لکھتا ہوں۔”
سردار کا یہ کہنا تھا کہ نقرئی خیمے میں بیٹھی دلہن تڑپ کر مسہری پر ڈھیر ہو گئی۔ اُدھر مجمعے میں سب مردوں نے اُسکے محبوب کو دبوچ کر رسے سے باندھ دیا۔ اور عین اسی ساعت بہت سارے خواجہ سرا مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مجھے ایک رسے سے باندھ کر ایک خیمے میں ڈال دیا۔ میں بھول گیاتھا کہ بستی کے فیصلوں میں خواجہ سراؤں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ ان موقعوں پر وہ پہرا دیتے ہیں۔ اب میں خیمے میں اوندھا پڑا بستی کے خوب رو ترین مرد کو بھینٹ چڑھانے کی تیاریاں دیکھ رہا تھا۔
اس بزرگِ دانا کے کہنے پر کہ وہ خداؤں کا آشنا تھا، جنگل سے قیمتی لکڑیاں چنی گئیں اور میدان کے مرکز میں ایک الاؤ روشن کیا گیا۔ جب شعلے بلند ہو کر آسمان کو چھونے لگے اور آسمانوں پر سوئے خدا الاو کی تپش سے ایک ایک کر کے بے دار ہونے لگے تو بستی سے چار تنومند اور کڑیل نوجوان سردار کی بیٹی کے محبوب کے اٹھا لائے۔ نقرئی خیمے کی سب دیواریں ہٹا دی گئیں۔ تمام لڑکیوں کو دلہن سے دور ہٹا دیا گیا۔ اور یہ سب اس لیے کیا گیا کہ جب محبوب کو آگ کے شعلے چاٹنے لگیں تو اس کا پگھلا وجود دیکھ کر، اس کے گوشت کی سڑانڈ سونگھ کر وہ بین کرے، چیخے چلائے تا کہ خداؤں کے دل پسیج جائیں اور وہ بارش برسا دیں۔ پھر بستی کے حسین ترین نوجوان کو الاؤ میں جھونک دیا گیا۔ فرح بری طرح رو دی۔
معاف کیجئے گا، دھندلکا ایک بار پھر۔۔۔۔ سردار کی بیٹی کی چیخ بلندہوئی تو سردار سمیت سب بوڑھوں نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی۔ وہ سب مرد و زن یقین کی کیفیت میں کھڑے اس نوجوان کے وجود کو شعلوں میں پگھلتا دیکھنے لگے تا کہ بعد میں اس کی ہڈیوں کی راکھ سمیٹ کر اپنی عبادات و مناجات جاری رکھ سکیں۔ اور پھر کچھ یوں ہوا جو سب کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ بستی کا وہ خوب رو نوجوان سردار کی بیٹی کا محبوب آگ کے اس الاؤ سے کندن کا بدن لیے برآمد ہوا۔
"یہ کیا؟” سب نے استفہامیہ نظروں سے مردِ دانا کی طرف دیکھا۔ وہ بولا، "خداؤں نے بھینٹ قبول نہیں کی۔ وہ چڑھاوے میں اذیت کی بڑی آمیزش کا مطالبہ کرتے ہیں۔” ” وہ کیسے؟” سب یک زبان ہو کر بولے۔ "اس نوجوان کا خون اس کی محبوبہ کے ہاتھوں بہے گا اور اسے اس سے منسوب عم زاد غسل دے گا تو خدا یہ بھینٹ قبول کر لیں گے۔” یہ سن کر سب مردخاموش ہو گئے، عورتوں کی سسکیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ بستی کی ساری عورتیں اپنے بچوں کو سینوں سے لگائے سردار کی بیٹی کی مسہری کے گرد جمع ہو گئیں اور اسے بھینٹ کے لیے تیار کرنے لگیں۔ البتہ اس کے محبوب کو اس نئے فیصلہ سے لاعلم رکھا گیا اور اسے اسی خیمہ میں ڈال دیا گیا، جہاںمیں تھا۔ ہر طرف سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔ میں نوجوان کے اس نئے فیصلہ سے آگاہ کر سکتا تھا لیکن بستی میں مینہ برسنے کی خواہش میں شریک ہو کر میں چپ رہا۔
جب سردارکی بیٹی اپنے ہاتھوں سے اپنے محبوب کی قربانی کے لیے تیار ہو گئی تو تمام عورتیں اپنے گھروں سے بچا کھچا پانی اکٹھا کر لائیں اور شربت بنا کربستی کے مردوں کی تواضع کرنے لگیں۔ سردار نے اپنی کمر سے بندھا آب دار خنجر نکالا اور اپنی بیٹی کے قدموں میں رکھ دیا۔ "میں امید کرتا ہوں کہ اس خنجر سے بہایا گیا خون ہماری بستی کے لیے خوش حالی لائے گا۔”
بزرگِ دانا نے اسے ٹوکا، مسکرایا اور اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولا، ” اذیت کی کوئی حد نہیں ہوتی اور خدا بھی لامحدود وجود رکھتے ہیں۔ بستی کی کند ترین چھری لائی جائے۔”
مہترانی بھاگم بھاگ خیمے سے کند چھری اٹھا لائی۔ وہی چار کڑیل جوان خوب رو نوجوان کو لانے کے لیے آگے بڑھے تو بزرگِ دانا نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روک دیا۔ "یہ کام خواجہ سراؤں کو کرنے دو۔” خوش حالی کی دھن میں پاگل اپنی بھدی آواز میں خوفناک گیت گاتے خواجہ سرا اس نوجوان کے دھوکے میں مجھے میدان میں اٹھا لائے۔ فرح مسہری سے اتری، اپنا بھاری بھرکم عروسی لباس سنبھالتی، حنائی ہاتھوں میں کند چھری پکڑے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی میری طرف بڑھی۔ میں منظر کی خوف ناکی سے دہل کربار بار آنکھیں جھپک کردھندلکا دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اب کی بار منظر مزید گہرے رنگوں سے مزین ایک حقیقت بن کر میرے سامنے ایستادہ ہو گیا۔ فرح میرے قریب آئی، اتنی قریب کہ ایک ثانیے کے لیے تو میں سرشار ہو گیا۔ اس نے پوری کوشش سے مجھ سے نظریں چراتے ہوئے مجھ پر جھک کر میری گردن پر کند چھری رکھ دی۔ میں نے اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں محبت کا اعتراف محسوس کیا اور آنکھیں بھینچ لیں۔ مجھے معلوم تو نہیں لیکن میری کٹی شہہ رگ سے خون کا فوارہ ضرور پھوٹا ہو گا اور عین اسی لمحے بستی پر برستا مینہ اسے جل تھل کر رہا ہو گا۔
رات کے سوا بارہ بج چکے تھے۔میں نے سوچا،اس وقت تک فرح اپنی عروسی مسہری پر نڈھال ہو کر سو چکی ہو گی۔ میں نے آخری سگریٹ سلگایا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

Related posts

Leave a Comment