اکرم کنجاہی ۔۔۔ بسمل صابری (مضمون)

بسمل صابری

وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

اُردو ادب سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے یہ شعر نہ سنا ہو۔بسمل صابری کے اِس شعر نے مقبولیت کا بڑا سفر طے کیا ہے۔ اس شعر میں محبت کا والہانہ پن، ہجر و فراق کا کرب، نا تمامی و بے ثمری کا سوز و گداز اور جذبے کی صداقت قاری پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ موصوفہ ساہیوال میں مقیم ہیں۔ کبھی مشاعرے اُن کی وجہ سے کامیابی کی ضمانت تھے۔اِن دنوں مشاعروں سے دور مگر فکرِ سخن میں مصروف و متحرک ہیں۔مذکورہ بالا شعر کا بالکل ذاتی اور نجی سطح کا کرب اُن کی شاعری کا ایک اہم رخ ہے جو کلام میں جلوہ ریز ہے:

مرے نصیب میں کس نے یہ فرقتیں لکھ دیں
تمہارے ہجر میں جلتے رہے ہیں شام کے بعد

مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اُن کی شاعری یک رخی نہیں کہ اُس میں ایک فرد کو نہیں ایک انسان اور معاشرت کو موضوع بنایا گیا ہے۔بسمل صابری بھی اُن چند شاعرات میں سے ہے جن کا پہلا مجموعۂ کلام خاصا تاخیر سے منظرعام پر آیا مگر وہ کلام کتابی صورت میں ظہور پذیر ہونے سے پہلے ہی ادبی دنیا میں اپنا مقام اور نام بنا چکی تھیں۔ لہٰذ۱۹۹۸ ء میں ’’پانی کا گھر‘‘ شائع ہوا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔دوسرا مجموعۂ کلام ’’روشنیوں کے رنگ‘‘ ۲۰۱۱ ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ بعد ازاں اُن کی دیگر کتب ۲۰۱۳ء میں’’یادوں کی بارشیں‘‘ اور ۲۰۱۵ء میں’’رس کی پھوار‘‘ منظر عام پر آئیں۔ بنیادی طور پر وہ غزل کی شاعرہ ہیں اور معروف شاعر جان کاشمیری نے قرطاس گوجرانوالہ کے بسمل صابری نمبر میں اُنہیں ’’غزل رانی‘‘ قرار دیا تھا۔ اُن کا ایک نعتیہ مجموعۂ کلام ’’بیاضِ نظر‘‘ بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے۔اُن کے ہاں اظہارِ بیاں میں نہایت درجے کی سادگی ہے مگر غزلیت و شعریت کمال درجے کی ہے۔فکری اعتبار سے اُن کا کلام روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ عصری شعور کا حامل ہے۔ مصرع سازی خوب ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔خوش آواز بھی ہیں اور ایک زمانے میں تو اُن کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ فکری اعتبار سے اُن کی شاعری کو پہلو دار کہا جا سکتا ہے کہ اُس میں ہمارے سماجی رویے اور معاشرتی دکھ درد نمایاں ہیں۔بسمل صابری کی شاعری موجودہ عہد کی شاعری محسوس ہوتی ہے کہ انھوں نے خود کو لا شعوری اور وجدانی کیفیات سے جنم لینے والی سخن وری تک محدود نہیں رکھا بلکہ خارجیت پر بھی نظر رکھی ہے۔ہمارے فکری انتشار کو جنم دینے والے خارجی عناصر دہشت گردی، افلاس، بھوک، سماجی بے چینی، معاشرتی مسائل، اخلاقی انحطاط اور احباب کی منافقت اور بے اعتنائی جیسے موضوعات پر لکھا ہے۔اُن کے آخری مجموعۂ کلام ’’رس کی پھوار‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

کیسا عجیب سلسلہ وارفتگی کا ہے
اُس کی نگاہِ شوق سے وابستگی کا ہے
٭
شہر کا شہر ہی برباد  ہوا جاتا ہے
رات کے پچھلے پہر گھر میں بھی پتھر آئے
٭
مقصدِ تخلیق بھی تقدیر نے کیسے لکھا
مشکلوں میں گھر گیا ہے اِس قدر انسان  کیوں
٭
بچوں کی بھوک اُوڑھ کے نکلی تھی مامتا
نیلام ہو گئی ہے مگر ٹوٹنے کے بعد
٭
اہلِ ہوس کو زر کی تمنّا  نے کیا دیا
انسانیت  تڑپتی ہے لاشوں کے درمیاں
٭…٭…٭

Related posts

Leave a Comment