اکرم کنجاہی ۔۔۔ صالحہ عابد حسین (مضمون)

صالحہ عابد حسین

صالحہ عابد حسین نے زندگی کے کھیل اور نقشِ اول جیسے ڈرامے بھی لکھے مگر انہیں شہرت ناول نگاری سے حاصل ہوئی۔اس کے علاوہ  ’’یادگارِ حالی‘‘، ’’خواتینِ کربلا کلامِ انیس کے آئینے میں‘‘  اور ’’جانے والوں کی یاد آتی ‘‘ہے ان کی اہم تصانیف ہیں لیکن انہیں دائمی شہرت ایک ناول نگار کی حیثیت سے حاصل ہوئی۔مصنفہ کا پہلا ناول عذر  ا ۱۹۴۲ء میں شائع ہوا۔ پھر آزادی کے بعد ان کے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔آتش خاموش،قطرے سے گہر ہونے تک، راہ عمل، اپنی اپنی صلیب خاص اہمیت کے حامل ہیں۔صالحہ عابد حسین کے ناول  اپنے عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے ناولوں میں ہندوستانی زندگی کے زیر و بم اور نشیب و فراز کو پیش کیا گیا ہے۔ تمام ناول اخلاقی و اصلاحی اور معاشرتی نقطہ نظر کی غمازی کرتے ہیں اور ان ناولوں میں پیش کی گئی فضا کسی نہ کسی اصلاحی نظریات یا خیالات کے فروغ  سے تعلق رکھتی ہے۔مزید براں اُن میں مشرقی اقدار اور معیار اور مغربی تہذیب و تمدن دونوں کے عناصر کا تصادم دکھائی دیتا ہے بلکہ دونوں تہذیب و تمدن کے ماننے والے اپنی اپنی زندگی کی حمایت میں ہی نظر آتے ہیں۔
کرداروں کے جذبات و احساسات غور و فکر کے دائرے سے تجاوز نہیں کرتے۔ مصنفہ نے فن کی نزاکتوں کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی میں مشرق و مغرب کے دونوں پہلو ؤں پر روشنی ڈالی ہے اور متصادم سماج کی سچی تصویریں  اتاری ہیں۔ گھریلو زندگی کے اندر ہونے والی رسموں کاناول نگار نے باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور چار دیواری سے باہر سڑکوں اور بازاروں اور چوراہوں کو بھی قریب سے دیکھا جہاں اکثر اوقات سیاسی نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اس طرح سماجی اور سیاسی دونوں قسم کے مسائل پیش کیے ہیں۔ ناول نگار نے اپنے موضوع اور سماجی و سیاسی مسائل کے ساتھ انصاف کیا ہے کیونکہ کرداروں کے فطری مکالمے اور اتنی دلکش جذبات نگاری اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب ناول نگار موضوع کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے غوروفکر کا دامن نہ چھوڑ یے۔
وطن پرستی کے جذبات، انسانیت کی خدمت ، اصلاحی، اخلاقی، اصول و نظریات کے ساتھ ہی قوم پروری اور انسان دوستی کے اہم تصورات ان کی تخلیقات میں نمایاں طور سے دیکھے جا سکتے  ہیں کیونکہ ان کا مقصد اور نصب العین انسان  کے ہمدردانہ جذبات کی قدر کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہے بلکہ اُن کا دل ملک و قوم اور پورے بنی آدم کے لیے دھڑکتا ہے۔ اخلاقی رویوں کے فروغ میں اگر محبت رکاوٹ کا سبب بنتی ہے تو ان کے کردار فرض اور اخلاقی اصول کے تحت دوسری چیزوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صالحہ عابد حسین کے کردار فرض کی ادائیگی کے لیے اپنی ذاتی زندگی کے عیش و آرام اور اپنی خوشگوار زندگی کی تمام تر خواہش کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ آتشِ خاموش ناول کی ہیروئن جو ایک بہتر زندگی کے لیے حصول تعلیم کے سلسلے میں برطانیہ جاتی ہے اور وہاں اس کی ملاقات ڈاکٹر جاوید سے ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کو عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی عزت و وقار محبت میں تبدیل ہو کر شادی کے سہانے خواب دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جب انجم ڈاکٹر کی ڈگری لے کر ہندوستان واپس آتی ہے تو خدمت خلق کے جذبے کے تحت ڈاکٹر جاوید کے اسکول میں ملازمت کرنا پسند کرتی ہے۔ یہاں پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر جاوید نہ صرف شادی شدہ ہے بلکہ اُس کے بچے بھی ہیں چنانچہ وہ شادی کرنے کا ارادہ ترک کر دیتی ہے۔ وہ تجرد کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتی ہے مگر اپنی زندگی سے بیزار نظر نہیں آتی بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو خدمت  خلق کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ وہ اس ناول میں اصلاحی پہلو کو اجاگر کرنے کے ساتھ ذاتی خواہشات کو قربان ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس میں جسمانی معذوری کے ساتھ ہی زندگی میں پرورش پانے والی لڑکی کو پیش کیا گیا ہے اور جس روشن خیالی اور صلاحیتوں کی بنیاد پر اُس کے دل میں خدمت خلق، محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ شدید ہونے کے باوجود اپنے معاشرتی زندگی کی تلاش میں کشمکش میں مبتلا رہتی ہے۔ اس ناول میں بے روزگاری کے مسائل کو بھی زندگی کے پس منظر میں پیش کیا ہے۔’’اپنی اپنی صلیب‘‘ میں ان کا مخصوص انداز ملتا ہے جو کہ ہر انسان غموں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے زندگی کا طویل سفر طے کر رہا ہے جو ایک تلخ حقیقت بھی ہے اور انسان کی زندگی کا مقدر بھی عجب شے ہے۔ ’’راہ عمل‘‘ میں معاشرتی زندگی کو پیش کرنے کے ساتھ سیاسی مسائل کو بھی ابھارا گیا ہے جس میں جدید ہندوستان کی تعمیر و تشکیل کی تصویریں ملتی ہیں اور ناول کے کردار وطن پرستی اور قوم و ملک کی محبت سے ان کے دل سرشار نظر آتے ہیں۔

Related posts

Leave a Comment