اور اب گیس بھی! …. نوید صادق

میرا پاکستان
…….

اور اب گیس بھی!
…………

گذشتہ کئی برسوں سے ہم بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھگت رہے ہیں۔ ہر حکومت دعوے کرتی ہے کہ بس کچھ دن کی بات ہے، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم سنتے ہیں، سوچتے نہیں اور مان جاتے ہیں۔ جیسے سچ مچ آنے والے دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ہونا تو کیا ہوتا ہے، ایک آدھ نیا مسئلہ ہمارے سر پر سوار ہو جاتاہے۔ پھر دعوے، وعدے ہمیں بہلانے لگتے ہیں۔ ہم سالہا سال سے یہی دیکھ رہے ہیں، بھگت رہے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ سارا مسئلہ ہماری حکومتوں کا پیدا کردہ ہے، ہم عوام بھی ہر مسئلہ کو پیدا کرنے اور بعدازاں اسے ترویج دینے میں شریک ہوتے ہیں لیکن حکومتوں کا ہاتھ تھوڑا زیادہ اس لیے ہوتا ہے منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی تو حکومتوں نے وضع کرنا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عجیب ماحول بنا ہوا ہے، جب کوئی مصیبت عین ہمارے دروازے پر دستک دینے سے بڑھ کر گھر کے اندر داخل ہو جاتی ہے تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیا؟ اب کیا کریں؟ ایسے میں دماغ تو شاید کام کر جائیں لیکن زمینی حقائق ساتھ دینے کو آمادہ نہیں ہوتے۔
ابھی کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ ہمیں مختلف تکنیکی حلقوں کی جانب سے وارننگ دی جانے لگی کہ پاکستانیو! تیار ہو جاو، گیس کی قلت بس آئی کہ آئی۔ ہم سمجھے ہی نہیں۔ سی این جی کا رواج ہوا تو بڑھتا ہی گیا پھر سی این جی کی بندش، بات ہفتے میں ایک آدھ دن کی بندش سے بڑھ کر نصف اور پھر پون ہفتے تک آ گئی۔ ہم پھر بھی نہیں سمجھے، ہم نے گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کی طرف توجہ دینا کبھی مناسب ہی نہیں سمجھا۔ جو مل گیا اُسی پر صبر شکر کر کے بیٹھ رہے کہ قدرت کی یہ فیاضی کبھی نہیں رُکے گی۔سو حالات یہاں تک آگئے کہ ایک روز اعلان ہوا کہ آج کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے سی این جی پمپس بند رہیں گے۔ اور پھر سی این جی پمپس واقعی بند ہو گئے۔ اب کبھی سڑک پر چلتے ہوئے کسی ویران سی این جی پمپ پر نظر پڑ جائے تو بس یوں جانیے ، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
بات یہیں نہیں رُکی، صنعتیں کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، انھیں بھی گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ پھر دیکھا کہ یوں تو ہماری معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہو جائے گی، سو صنعتوں کو محدود پیمانے پر گیس کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا، لیکن وہ تابش دہلوی مرحوم فرما گئے ہیں ناں کہ:

چھوٹی پڑتی ہے اَنا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے

ہو بہ ہو یہی حال ہوا، صنعتوں کو گیس فراہم کی جانے لگی تو گھروں میں چولھے بند ہو گئے۔ پہلے تو یہ مسئلہ تھا کہ روزمرہ کی اشیاءگراں ہیں، اب یوں ہوا کہ اشیا تو جیسے تیسے مل جاتی ہیں، پکائیں کس پر؟صبح صبح عجیب حال ہوتا ہے، گیزر نہیں چلتا کہ نہا سکیں، ہیٹر نہیں چلتا کہ ہاتھ تاپ سکیں، چولھا نہیں جلتا کہ ناشتے اور چائے وغیرہ سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اسی پر بس نہیں کہ آدھے سوئے آدھے جاگے دفتر میں جابیٹھتے ہیں تو دوپہر تک گھر سے کئی فون آ جاتے ہیں کہ ابھی تک چولھا بند ہے، کیا کیا جائے؟ دوپہر کو فون آتا ہے کہ گیس نہیں تھی، کھانا نہیں پک سکا، بچے کیا کھائیں گے، کھانے کو کچھ لے کر دے جائیں۔ شام کو فون آتا ہے کہ گیس نہیں ہے، چولھا ٹھنڈا ہے، کھانے کو کچھ لیتے آئیں۔ سردی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے، گیس ہے کہ جانے کا تو پتہ ہے، آنے کی کوئی خبر نہیں۔ ان حالات میں انصاف کیجیے کہ انسان گھر پر توجہ دے کہ دفتر پر اور یہ تو آپ اور میں بھی جانتے ہیں کہ ملک چلنے کے لیے گھر وں اوردفتروں کا چلتا رہنا اَزحد ضروری ہے۔تو ایسے میں کیا ہو گا؟ سوچتے ہیں تو دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔
ستم بالائے ستم کہ ہم احتجاجات کے معاملے میں بھی پرلے درجے کے اُستاد واقع ہوئے ہیں۔ گھر میں گیس نہیں، سی این جی پمپ بند ہے، کیا کیا جائے، اور تو کیا ہو سکتا ہے، چلیے تھوڑا احتجاج ہی کر لیتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو دل کا غبار تو نکلے گا ہی ناں۔چلیے قریب کی کسی سڑک کو احتجاجاًبند کر ڈالتے ہیں۔ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس میں تقریباً ہم سب ایک سے مسائل کا شکار ہیں۔ لیکن سڑک بند کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کچھ بچے سکول جا رہے ہیں، وہ نہیں جائیں گے تو اُن کا ہرج ہو گا۔ کسی کو دفتر پہنچنا ہے اور وہ بھی اسی معاشرے کا فرد ہے، بالکل ہمارے ایسے مسائل کا شکار ہے، ناشتہ اُس نے بھی نہیں کیا، لیکن کچھ بھی ہو، ہم تو تمھیں یہاں سے ایک قدم آگے نہیں جانے دیں گے۔ ایمبولینس میں کوئی مریض جا رہا ہے، شاید آخری دموں پر ہو، لیکن ہمیں کیا، ہمارے گھر میں گیس نہیں آ رہی، مرتا ہے تو مر جائے، سڑک نہیں کھلے گی کیوں کہ ہم احتجاج کر رہے ہیں۔ ارے یہ کیا، یہ تو احتجاج نہیں ہے، لو۔۔ وہ ایک بس آ رہی ہے، پکڑو، اِسے آگ لگاتے ہیں۔ ارے یہ جو لوگ بس میں سوار ہیں یہ بھی ہمارے اپنے ہیں، تو ہم کیا کریں؟ ہمارے گھر میں گیس نہیں آ رہی۔ دیکھ کیا رہے ہو، آگ لگا دو۔ بس ڈرائیور بھی تو کسی ناتے ہمارا بھائی ہے، اس کے بیوی بچوں کا کیا ہو گا؟ گیس تو اس کے گھر میں بھی نہیں آ رہی۔ ارے باتوں میں وقت ضائع مت کرو، ابھی پولیس آتی ہو گی، اُس سے بھی نپٹنا ہے۔ جلدی بس کو آگ لگا دو۔ چلیے یہ بھی ہو گیا۔ اب سوچتے کیا ہو؟ یہ بجلی کے کھمبے پر جو لائٹیں لگی ہیں، توڑ ڈالو، آس پاس کی دکانوں کو بھی آگ لگا دو۔ یہ ہیں ہمارے مسائل اور یہ رہا ہمارا احتجاج۔ یہ رہیں ہماری منصوبہ بندیاں اور یہ رہے ہم۔۔۔۔ ایک مضبوط تاریخ کی حامل قوم کے افراد، بظاہر ایک تہذیب یافتہ معاشرے کے افراد۔
صاحبو! یوں کب تک چلے گا؟ ہم نے شاید کبھی غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ شاید ہم اپنے آپ سے مخلص ہی نہیں ہیں۔ اگر تہذیب کی کوئی رمق باقی بچی ہوتی تو ہم ہر ہر قدم اٹھانے سے پہلے سوچتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ کس کس کو فائدہ پہنچے گا؟ کون کون نقصان اٹھائے گا؟یہ سب محض اس لیے ہے کہ ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اسلام میں سب سے زیادہ زور حقوق العباد پر دیا گیا ہے۔ ذرا سوچیے، ایمبولینس کا راستا روکتے وقت ہم نے کون سے حقوق العباد ادا کیے ہیں۔بس میں سوار لوگوں کے کوئی حقوق تھے کہ نہیں؟ جن لوگوں کی دکانیں ہم نے جلا ڈالیں، اُن کے بارے اب ہم کیا کہیں کہ ہم نے اپنا چولھا نہ جلنے پر غصے میں کتنے گھروں کے چولھے بجھا دیے، لیکن یاد رہے کہ اتنی مشقت اٹھانے اور دینے کے بعد بھی ناشتا نہیں ملنے کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۰۴ جنوری ۲۰۱۴ء

 

Related posts

Leave a Comment