مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے … نوید صادق

میرا پاکستان
……..

مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے!
……….

بہاول پور ہمیں بہت عزیز ہے۔ وہیں آنکھ کھولی، پلے بڑھے۔ ہوش سنبھالا تو شعری افق پر ظہور نظر اور سید آلِ احمد کے نام جگمگا رہے تھے۔ ظہور نظر اور سید آلِ احمد بہاول پور میں دو دبستانوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے نوجوان شعرا کی تربیت اور یہاں بھرپور شعری فضا کو ترویج دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ظہور نظر اور سید آلِ احمد کے بعد بہاول پور سے ابھرنے والے شعرا میں افضل خان کا نام نمایاں ہے۔ افضل خان کا پہلا شعری مجموعہ”تو بھی، میں بھی“ 1999ءمیں شائع ہوا۔ فن کارانہ خوداعتمادی اور جدتِ اظہار و فکر کی چنگاریوں نے شعر کے سنجیدہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

جانے کب دُھن یہ سفر کی مرے سر سے نکلے
اب تو اک عمر ہوئی ہے مجھے گھر سے نکلے

افضل خان کا دوسرا شعری مجموعہ”اِک عمر کی مہلت“ 2013ءمیں اشاعت پذیر ہوا۔افضل خان بدلی ہوئی یا یوں کہیے کہ بدلتی ہوئی نفسیات کا شاعر ہے۔ اس کے ہاں محبت میں حقیقت پسندی کا رجحان نمایاں ہے۔روایتی معاشرہ میں عشق ایک بنیادی قدر تھی، میر کے والد نے مرتے وقت میر سے کہا تھا کہ بیٹا عشق کرنا۔ اس لیے کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کائنات کو سمجھنے سمجھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ قدیم معاشرہ میں محبت افراد میں قوت اور ہمت کا باعث سمجھی جاتی تھی،لیکن عہد موجود میں محض ایک تجربہ ہے یا یوں کہیے کہ حیاتیاتی ضرورت جسے محمد حسن عسکری ”حیاتیاتی آنکھ مچولی“ قرار دیتے تھے۔”تم مرے پاس ہوتا ہو گویا“ والی کیفیت بھی عقل کی میزان پر غیر اہم ہے۔ ناز و انداز و عشوہ بھی بے معنی ٹھہرتے ہیں کہ وقت کی کمی ہے۔سب چلے گا، یوں بھی اوریوں بھی۔چند اشعار دیکھیے:

تجربے کے طور پر تیری طرف آیا ہوں میں
عشق کرنے کا سبب کوئی بھی بنیادی نہیں

فیصلہ چھوڑ دیا ہے تجھ پر
دل تو تیار ہے یوں بھی، یوں بھی

لیکن افضل خان اپنی روایت سے جڑا ہوا شخص ہے۔ سب کچھ بدل جانے کے باوجود اس کی شاعری میں کہیں کہیں محبت کی اصل روح کہ قدیم سے ہمارے ادب کا حصہ رہی ہے، انگڑائیاں لیتی دکھائی دیتی ہے۔ واضح کرتا چلوں کہ محبت کا یہ پہلو خالص انسانی اور تہذیبی ورثہ بھی ہے۔

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشک بار ہوتے ہوئے

راہِ گم نام پہ قدموں کو اٹھاتے ہوئے میں
کتنا بوجھل ہوں ترے شہر سے جاتے ہوئے میں

سماجی نفسیات میں افراد کے باہمی تعلقات سب سے زیادہ دل چسپی کے حامل ہیں۔ افراد کے باہمی تعلقات۔۔۔ اُن کے خیالات، احساسات اور طرزِ عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اندرونی یا بیرونی محرکات کے خلاف کسی شخص کا رویہ یا ردِ عمل خصوصاً اہمیت رکھتا ہے۔ جدید انسان کے جہاں اور بہت سے مسائل ہیں وہیں اس کا سب سے بڑا مسئلہ شدید احساسِ مغائرت ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ دکھ میں سکھ میں۔ زندگی کی اکائی فرد ہے، معاشرہ نہیں۔ باہمی اتفاق، نفاق میں بدل گیا ہے۔اعتماد کا فقدان بھی اسی مغائرت کی دین ہے۔معاشرے میں باہمی انحصار کی سطح معاشرتی اقدار کا تعین کرتی ہے ۔ انسان۔۔۔ انسان سے، خدا سے، فطرت سے الگ ہو کر طرح طرح کے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی معالج مریض کے رویے یا کسی محرک سے ردِعمل کو بتدریج تبدیل کرتے ہیں تو ادیب ان رویوں، ان نفسیاتی گنجلکوں کا کتھارسس کرتا ہے۔ اِس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ اور لازمی درپیش خطرات کی پیش بندی کرتا ہے۔

دالان میں سبزہ ہے نہ تالاب میں پانی
کیوں کوئی پرندہ مری دیوار پہ اُترے

خود بڑھ کے دیکھ آؤں کہ گھر لوٹ جاؤں میں
رستے میں یہ کھلا ہے کہ بازار بند ہے

جدیدیت کی تحریک سے قبل علم کی ماہیت، طریقوں اور حدود کا مطالعہ الہٰیات یا باطنیت پر مبنی تھا۔عقیدے کی اہمیت تھی۔جدیدیت کی تحریک میں نقطہ نظر یہ تھا کہ دنیا اور کائنات عقل، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے ہی دریافت کی جا سکتی ہے۔ اس کے حقائق تک رسائی صرف سائنسی طریقوں سے ہی ممکن ہے۔ عقل کی لامحدود بالادستی کو اہمیت دی گئی۔اس تحریک نے مذہب اور الہیات کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ سیاسی محاذ پر اس تحریک نے خدا کی بجائے عوام کو اقتدارِ اعلیٰ کا نمائندہ قرار دے دیا۔ معاشی محاذ پر اس تحریک نے سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرے کو وجود بخشا۔ اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادیت پسندی کا فلسفہ عام کیا۔ ما بعد جدیدیت تمام نظریات کے انکار کا دوسرا نام ہے۔ اس کے تحت دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا کوئی وجود نہیں ہے۔آفاقی سچائی ہو یا کوئی اور اخلاقی قدر، حسن و خوب صورتی کا احساس سب اضافی اور غیر اہم ہیں۔مابعد جدیدیت کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ایک ہی بات ایک مقام پر درست ہے تو ایک مقام پر غلط۔ ایک حالت میں سچ ہے اور ایک حالت میں جھوٹ۔اس تحریک میں سائنس کو بھی حتمی سچائی کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔مابعدجدیدیت کے باعث لوگوں کی دل چسپی افکارو نظریات سے کم ہوئی۔ سب ذاتی اور ذاتی پسند کے تحت ہے۔ اچھا شاعر کسی ایک نظریے کا اسیر نہیں ہوتا۔ وہ تو تمام درپیش معاملات کا تجزیہ کرتا ہے، تمام دستیاب یا رائج نظریات کے اچھے برے پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہے۔ اور اس کا وجدان اسے نئے راستے سجھاتا ہے۔

گئے وہ دن جب میں سوچتا تھا
جو یوں نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے

اب آدمی بنانے لگا ہے خود آدمی
اس کوزہ گر کی کوزہ گری کے لیے دعا

افضل خان اپنے تجربات و مشاہدات کو شعری اکائی میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روایت کا شعور بھی اپنی جھلکیاں دکھاتا ہے۔جذبہ و احساس کی مختلف سطحوں کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔متنوع موضوعات کو غزل کے آہنگ میں ڈھالتے ہیں۔ لیکن کہیں بھی گہری فکر کا دامن ہاتھ سے نہیں جاتا۔لہجے کی تازگی، توانائی اور خوداعتمادی اُن کے ہاں شعری حسن کو نکھارتے ہیں۔

کہانی میں کوئی رد و بدل کر
مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے

میں پہلے کوفہ گیا اس کے بعد مصر گیا
اِدھر برائے شہادت، اُدھر برائے فروخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۵ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment