نظریہ پاکستان اور جعل سازیاں … نوید صادق

میرا پاکستان
……..

نظریہ پاکستان اور جعل سازیاں
……………

’تم نے ریاست کے خلاف زبان کھولی ہے! لوگوں کو گم راہ کرنے کی کوشش کی ہے! تمھیں سخت سزا دی جائے گی‘۔ تاریخ انسانی میں اس طرح کے جملے، ایسے ظالمانہ فیصلے اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک منٹ، کیا یہ فیصلے واقعی ظالمانہ تھے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علم برداروں کو جب اور کوئی کام نہیں ہوتا تو تاریخ پر نکتہ چینی شروع کر دیتے ہیں۔ویسے اس قماش کے لوگوں کو کام ہوتا کب ہے؟ سوال یہ ہے کہ ریاست کے وجود کی کیا اہمیت ہے؟ ریاست کا وجود ضروری ہے کہ نہیں؟
انسانی تاریخ بڑی ظالم ہے۔ ایسے ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ پڑھتے وقت دل دہلنے لگتا ہے۔لیکن انسانی تاریخ کا مطالعہ سکھاتا بھی بہت کچھ ہے۔ان جنگلوں، ان پہاڑوں میں فرد اکلاپے کا شکار تھا۔ فطرت کے سامنے بے بس تھا۔ پھر فرد فرد سے ملا، فرد سے افراد ہوے اور ہوتے ہوتے افراد کے مجموعہ نے معاشرے کی تشکیل کی۔ آپ اگر لفظ ”معاشرہ“ پر معترض ہیں تو انسانی کٹھ کو قبیلہ کہہ لیں۔ افراد نے مل کر آفات کا سامنا شروع کیا، افراد نے مل کر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل بہم کیے۔کوئی جنگلی جانور بستی میں گھس آتا توسب مل جل کر اس کا مقابلہ کرنے لگے۔ افراد نے مل جل کر رہنا شروع کر دیا۔ قبیلے بڑھے اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آئیں۔ حد بندیاں ہوئیں، سرحدیں بنیں۔ اور پھر چھوٹی چھوٹی ریاستیں مل کر بڑی اکائیوں کی صورت میں سامنے آئیں۔یہ سب ایک پیراگراف میں نہیں، صدیوں کے فطری عمل کو بعد ہوا۔
ہر ریاست، ہر مملکت کی اپنی نظریاتی اساس ہوتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات بہت عام ہو چلی ہے کہ ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ بھئی ہماری نظریاتی اساس تو اسلام تھی لیکن فلاں فلاں ریاست کی نظریاتی اساس کچھ بھی نہیں ۔ تو کیا دوسری ریاستیں یا مملکتیں ہوا میں وجود میں آئیں۔ نظریاتی اساس کا وجود ہر جگہ، ہر طبقے میں ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ سب کو اپنا گھر اچھا لگتا ہے اور دوسرا بے کار۔ ہو سکتا ہے ہمیں دوسروں کے نظریات بھلے معلوم نہ ہوں، اور یہ فطری عمل ہے کہ اگر سب ریاستوں کی نثریاتی اساس ایک ہوتی تو پھر قبیلوں، شہروں، صوبوں، ملکوں میں بٹنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔سب انسان مل جل کر ایک جھنڈے تلے زندگی گزار سکتے تھے۔
ہم نے اوپر کہا کہ سب کو اپنا گھر، اپنا ملک، اپنے نظریات اچھے لگتے ہیں۔یقین نہ آئے تو دنیا کا ایک چکر لگا آئیں۔ آج کل تو یوں بھی یہ چکر بہت آسان ہو گیا ہے، مختلف ممالک کے نیوز چینل دیکھ لیں۔ ان ممالک میں بننے والی فلمیں، ڈرامے دیکھ لیں، بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ریاستی آئیڈیالوجی کو کیا اہمیت دی جاتی ہے۔ سب کو دیکھ آئیں اور اس کے بعد ذرا دیر کو اپنے ٹی وی چینلوں کو دیکھ لیں، اپنے دانش وروں کی فکر،سیاست دانوں کے نعرے، دعوے دیکھ لیں۔ فرق سامنے آ جائے گا۔ہمیں ان دانش وروں کو سن کر، پڑھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے جو مسلسل دوقومی نظریہ، نظریہ پاکستان اور قراردادِ مقاصد کی مذمت میں لگے رہتے ہیں۔ علامہ اقبال کی فکر کو غلط اور متعصبانہ قرار دیتے ہیں، قائداعظم کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ایسی مذہبی جماعتیں ہیں جو اقبال اور قائداعظم کی زندگی میں نقوص نکالنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ قائداعظم سے تو ان لوگوں کو ایک خاص قسم کا بغضِ معاویہ ہے۔مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مناظرے ٹی وی چینلوں پر براہِ راست پیش کیے جاتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک صاحب ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ وہ قراردادِ مقاصد کو نہیں مانتے۔ کچھ لوگ ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ“ کو غلط کہتے نظر آتے ہیں۔یقین جانیے یہ وہ لوگ ہیں جن کو نہ اسلام سے کوئی غرض ہے اور نہ پاکستان سے۔ یہ لوگ اُسی سلوک کے مستحق ہیں جو قدیم ریاستوں میں ریاست کے خلاف زبان کھولنے والوں کے ساتھ رائج تھا۔یہاں ایک اور بات واضح کرتا چلوں کہ اس قسم کے پروپیگنڈے مفت میں رونما نہیں ہورہے، ان کے پیچھے پاکستان مخالف قوتیں کارفرما ہیں۔ڈالروں کی بارش ہو رہی ہے۔ ان لوگوں کے غیر ملکی دورے ہی دیکھ لیں۔ سب کھل کر سامنے آجائے گا۔
اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے خلاف باتیں کرتے نہیں تھکتے لیکن رہتے یہیں ہیں۔ اگر انھیں یہ ملک، اور اس ملک کی نظریاتی اساس اتنی ہی ناگوار ہے تو کہیں اور کیوں نہیں چلے جاتے۔ کسی ایسی جگہ جہاں ان کے حساب سے درست آئیڈیالوجی رائج ہو۔ نہیں، یہ لوگ ایسا ہرگز نہیں کریں گے، کہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں چودھری بن کر بیٹھے ہیں تو کسی اور ملک میں سڑکوں کی صفائی کرنا ہو گی۔یہاں دانش ور کہلاتے ہیں، اورکہیں جائیں گے تو پیزا بیچتے نظر آئیں گے۔ یہ لوگ بھارت جاتے ہیں تو ان کے اعزاز میں تقریبات ہوتی ہیں، انھیں تمغوں سے نوازا جاتا ہے لیکن اگر انھیں وہاں کا شہری بن کر رہنا پڑ جائے تو سب آٹے دال کا بھاو¿ سمجھ آ جائے گا۔ان کے اچھے گزرتے روز و شب، ان کی عزت و تکریم صرف اور صرف پاکستان کے دم سے ہے۔ اور پاکستان نہ ہو تو ۔۔۔۔ہم تو اس سے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتے۔
ہماری ایسے تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے خودساختہ نظریات پر خود ہی غور کریں کہ یہ کون سا رویہ ہے۔ جس شاخ پر بیٹھے ہیں، اُسی کو کاٹنے کی جستجو میں ہیں۔ اور یوں بھی عوام ان کی الٹی سیدھی باتیں سن رہے ہیں لیکن ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب عوام ان کا محاسبہ کریں گے اور وہ دن ان کے لیے بہت سخت ہو گا۔ ہماری حکومتِ پاکستان کے ذمہ داران سے بھی درخواست ہے کہ اس طرح کے معاملات کا سختی سے نوٹس لیں، اس معاملے میں سخت قوانین تشکیل دیے جانے چاہئیں۔ کہ اس قماش کی زبان درازی قطعاً آزادی¿ اظہارِ رائے کی ذیل میں نہیں آتی، بغاوت سمجھی جاتی ہے۔حکومتی اداروں کی طرف سے نظریاتی تعلیم و تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے کہ اب وہ نسل معدوم ہوئی جاتی ہے جس نے قیامِ پاکستان کا عمل آنکھوں دیکھا تھا۔آئیے، ہم سب مل کر عہد کریں کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے تحفظ اور فروغ کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے کیوں کہ نظریہ پاکستان سے وابستہ رہنے میں ہی ہماری بقا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۶ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment