لائی لگ میڈیا اور جنرل پرویز مشرف … نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔

لائی لگ میڈیا اور جنرل پرویز مشرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل پرویز مشرف پر ایک کالم لکھ کر سوچا تھا کہ دوبارہ اس موضوع پر نہیں لکھیں گے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں جو موضوع چل پڑتا ہے، پھر دنوں بل کہ بعض اوقات تو مہینوں چلتا ہے۔جو ٹی وی چینل لگائیں، ایک ہی خبر چل رہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ سب خبریں ختم ہو گئی ہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں، بس جس موضوع پر بات ہو رہی ہے، یہی ایک موضوع، ایک مسئلہ ہے جسے اہمیت دی جارہی ہے اور دی جاتی رہنی چاہیے۔آج کل ہمارا سب سے بڑا موضوع، سب سے بڑا مسئلہ جنرل پرویز مشرف ہیں۔جنرل مشرف گھر سے چل پڑے ہیں، ان کی گاڑی فلاں چوک سے گزر رہی ہے، جنرل صاحب کے دل میں درد اٹھا ہے، ناظرین! اب گاڑیوں کا قافلہ عدالت کی بجائے راولپنڈی کا رخ کر رہا ہے۔ گاڑیاں ہسپتال کی طرف مڑ گئی ہیں، اور لیجیے ناظرین! جنرل صاحب ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔ کیا رواں دواں کمنٹری ہے۔ اور پھر عدالت لگتی ہے، ایک بڑا لفافہ عدالت میں پیش کیاجاتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ بعض ٹی وی چینل انچوں میں لفافے کا سائز اور گراموں میں وزن بھی بتا رہے ہیں۔ لیجئے، لفافہ کھلتا ہے۔ جنرل صاحب کو نو بیماریاں ہیں۔اب لگے رہیے ٹاک شوز میں۔
جنرل صاحب کے دل کی ایک شریان بند ہے (بعض ٹی وی چینل تین بھی کہہ رہے ہیں)، اُن کے خون میں کولیسٹرول زیادہ ہے، گھٹنے میں درد ہے، داڑھ میں تکلیف ہے، پراسٹیٹ کی سوجن ہے۔انھیں کمر میں تکلیف ہے،انھیں ریڑھ کی ہڈی کا عارضہ لاحق ہے۔ اُ±ن کا ایک کندھا کام نہیں کر رہا ،اُن کے جسم کی ہڈیوں میں سوزش ہے، وہ ذہنی دباو¿ کا شکار ہیں۔اُن کی انجیو گرافی متوقع ہے، ہو سکتا ہے بائی پاس سرجری بھی کرنا پڑ جائے۔اب ہم ہیں اور ٹی وی چینلوں پر ان بیماریوں کی خبریں ۔ شام سے یہی دیکھ دیکھ کر لگتا ہے کہ تھوڑی دیر میں یہ بیماریاں ہمیں بھی لاحق ہو جائیں گی۔ہم آگے کی بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ نیا موضوع سامنے لانے سے ڈرتے ہیں۔
اب بحث اس بات پر ہے کہ یہ رپورٹ سچی ہے یا جھوٹی۔ ظاہر ہے اس بات کا فیصلہ کرنا ایسا آسان نہیں کہ ایک آدھ مذاکرے میں طے پا جائے۔ایک ذمہ دار ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی اس رپورٹ کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی ہونا باقی ہے کہ جنرل صاحب کو لاحق بیماریوں کا علاج پاکستان میں ممکن ہے کہ انھیں انگلینڈ یا امریکہ کے کسی بڑے اسپتال میں لے جانا ہو گا۔ جناب اکرم شیخ کو تو ابھی تک یہ رپورٹ ملی ہی نہیں کہ وہ اس سلسلے میں کوئی رائے دیں۔ سیکرٹری دفاع جناب آصف یاسین ملک نے وضاحت کر دی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے اس مقدمے سے فوج کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میڈیکل رپورٹ کو بنیاد بنا کر حالات کا رُخ کس طرف موڑا جاتا ہے۔جنرل پرویز مشرف علاج کے لیے ملک سے باہر جا سکیں گے کہ نہیں، یہ فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی اور اس کے لیے ہمیں جمعرات کے دن تک انتظار کرنا ہو گا۔
جنرل پرویز مشرف پر اس مقدمے کے حوالہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے عجیب و غریب رجحانات سامنے آرہے ہیں۔ایک طبقہ ہے جو جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت کو سراہ رہا ہے، اس طبقہ¾ فکر کے حساب سے تو یہ مقدمے وغیرہ کا چلنا سرے سے غلط ہے۔ چوہدری شجاعت حسین پہلے تو دبے لفظوں میں جنرل صاحب کی حمایت کر رہے تھے، لیکن اب ذرا کھل کر سامنے آگئے ہیں۔انھوں نے اس مقدمے میں مواخذے کے لیے اپنا نام پیش کر دیا ہے۔انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس مقدمے میں جناب پرویز الٰہی، جناب اشفاق پرویز کیانی اور سابق چیف جسٹس کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ویسے دیکھا جائے تو چوہدری صاحب کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ جب جنرل مشرف یہ فیصلے کر رہے تھے تو وہ اکیلے تو ہرگز نہیں تھے، ان کے وزیر، مشیر اور فوجی افسران بھی ساتھ تھے اور شاید ان لوگوں سے مشورہ بھی کیا جاتا رہا ہو۔ یہ تو جنرل پرویز مشرف ہی بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے کون سا کام کس کے مشورے پر کیا لیکن ان کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ انھوں نے جناب شوکت عزیز کے علاوہ شاید ہی کبھی کسی کے مشورے پر عمل کیا ہو۔ باقی لوگ تو زیادہ تر سر ہی ہلاتے ہوں گے کیوں کہ بقول اُن کے وہ ڈرتے کسی سے نہیں ۔جہاں تک جناب شوکت عزیز کا تعلق ہے تو ان دنوں ایسا لگتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف جناب شوکت عزیز سے ازحد متاثر ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جناب شوکت عزیز قوم تو ایک طرف، خود جنرل صاحب کے ساتھ بھی ہاتھ کر کے چلتے بنے۔ حیرت اس امر پر ہے کہ جناب شوکت عزیز کے خلاف کہیں سے کوئی آواز اٹھتی سنائی نہیں دیتی۔ہم جب اس معاملے میں ہُو کا عالم دیکھتے ہیں تو ان دنوں جو باتیں سنتے تھے، اُن پر تھوڑا تھوڑا یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان دنوں مشہور تھا کہ جناب شوکت عزیز امریکی ایجنڈے پر علم درآمد کروانے کے لیے متعین کیے گئے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو واضح نقصان پہنچانے میں جناب شوکت عزیز سب اگلوں پچھلوں پر سبقت لیے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف جنابِ الطاف حسین ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دُور کی کوڑی لائے ہیں۔ ان کا اور ان کی جماعت کا موقف ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ محض ان کے مہاجر ہونے کے باعث چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کچھ جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر مسئلے کو کیش کروانے کے چکر میں رہتے ہیں، مثبت یا منفی۔۔ کسی بھی رُخ متعلقہ مسئلے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کا یہ ایک شان دار نمونہ ہے۔ایسی تحریکیں،ایسے شوشے ظاہر کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو پاکستان کی سالمیت سے نہ کوئی غرض تھی، نہ ہے۔یوں بھی صرف اردو بولنے والوں کو مہاجر گنا جانا لائقِ تشویش ہے کہ ہجرت تو دوسری زبانیں بولنے والوں نے بھی کی تھی۔
یار لوگوں کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ سعودی حکومت جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں دخل دے گی۔ لیکن سعودی وزیرِ خارجہ جناب سعود الفیصل نے دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ سعودی حکومت دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔یہاں تو یہ تک کہا جا رہا تھا کہ سعودی وزیرِ خارجہ جناب سعود الفیصل کی پاکستان تشریف آوری کا واحد مقصد جنرل پرویز مشرف کو اپنے ساتھ لے جانا ہے۔ لیکن اُن کی طرف سے ایسے کسی بھی ارادے کی نفی کے باوجود اس خدشے کو بے بنیاد ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ تاریخ سعودی وزیرِ خارجہ کے حالیہ بیان کی قطعی طور پر نفی کرتی ہے۔ سعودی حکومت نہ صرف پاکستان بل کہ اوس پڑوس کے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کو اپنا ملی حق سمجھتی ہے۔ ایران کے خلاف سعودی حکومت کا رویہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment