ایک طوفانِ بدتمیزی … نوید صادق

میرا پاکستان
…….

ایک طوفانِ بدتمیزی
………….

ٹی وی اینکر: تم اپنے بکرے کو کیا کھلاتے ہو؟
چرواہا: جناب! آپ کون سے بکرے کا پوچھ رہے ہیں؟ سفید بکرے کا یا کالے بکرے کا۔
ٹی وی اینکر: سفید بکرے کا پوچھ رہا ہوں۔
چرواہا: گھاس کھلاتا ہوں، جناب!
ٹی وی اینکر: اور کالے بکرے کو کیا کھلاتے ہو؟
چرواہا: جناب! اُسے بھی گھاس ہی کھلاتا ہوں۔
ٹی وی اینکر: اچھا یہ بتاؤ، تم بکروں کو باندھتے کہاں ہو؟
چرواہا: کون سے بکرے کو، جناب! کالے کو یا سفید کو؟
ٹی وی اینکر: اچھا بھائی، یوں کرو، سفید بکرے کا بتا دو۔
چرواہا: جناب! سفید بکرے کو تو میں بڑے کمرے میں باندھتا ہوں
ٹی وی اینکر: اور کالے بکرے کو کہاں باندھتے ہو؟
چرواہا: کالے بکرے کو بھی بڑے کمرے میں باندھتا ہوں، جناب!
ٹی وی اینکر: تم اپنے بکروں کو نہلاتے کس سے ہو؟
چرواہا: جناب! آپ کالے بکرے کا پوچھ رہے ہیں یا سفید بکرے کا؟
ٹی وی اینکر: بھائی! پہلے سفید بکرے کا بتا دو۔
چرواہا: پانی سے، جناب!
ٹی وی اینکر: تو کالے بکرے کو پانی سے نہیں نہلاتے کیا؟
چرواہا: نہیں جناب! اُسے بھی پانی ہی سے نہلاتا ہوں۔
ٹی وی اینکر طیش میں آ کر بولا: بدبخت انسان! جب تم دونوں بکروں کے ساتھ ایک سا سلوک کرتے ہو تو ہر سوال پر ، کالے کو یا سفید کو ، کیوں پوچھتے ہو؟
چرواہا: جناب! آپ اِس راز کو نہیں سمجھیں گے۔
ٹی وی اینکر: بھلا وہ کیوں؟ اِس میں ایسی کون سی بات ہے جو میں نہ سمجھ سکوں۔
چرواہا : جناب! بات کچھ یوں ہے کہ یہ جو سفید بکرا آپ دیکھ رہے ہیں ناں، یہ میرا ہے۔ میں نے اِسے بڑے نازوں سے پالا ہے۔
ٹی وی اینکر: اچھا، اب سمجھا۔ سفید بکرا تمھارا ہے لیکن یہ کالا بکرا کس کا ہے۔
چرواہا: جناب! یہ بھی میرا ہے۔
ٹی وی اینکر: تم اسے پسند نہیں کرتے۔ اسی لیے تم نے اسے پالنے پوسنے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں!
چرواہا: نہیں جناب! کالا بکرا بھی مجھے اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ سفید۔
’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘ والا معاملہ ہے۔ اب یہاں آ کر انسان کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے کہ کہاں پھنس گئے ہیں۔ ہمارے معاملات، جس شعبہ کو اٹھا کر دیکھ لیں، کم و بیش اسی نوعیت کے ہیں۔ نہ کہنے والے کو پتہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ سننے والے کو مطلق دل چسپی۔ہم نے سر ہلانے ہیں، تالیاں بجانی ہیں، نعرے لگانے ہیں۔ جناب الطاف حسین کی گذشتہ روز کی تقریر ہی کو لے لیجیے، ایک سٹیج ڈرامے کا سا ماحول تھا۔’یہ شادی نہیں ہو سکتی‘ ایسے ڈائیلاگ۔ خطاب کیا تھا ، مشہورِ زمانہ پنجابی فلم مولا جٹ کا اُردو ورژن تھا۔سندھ نمبر ون، سندھ نمبر ٹو جیسی اصطلاحات۔پیپلز پارٹی والو ، سن لو: یہ کیا تو یہ کر دوں گا۔ جماعتِ اسلامی والو: خبردار، نون لیگ والو: تم ناکام ہو۔ کیا ہے یہ سب؟ ہم بھی بڑے شوق سے بیٹھ کر یہ سب سنتے چلے جا رہے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہائے اللہ! اب کیا ہو گا؟ ہو گا کیا؟ وہی جو ہوتا چلا آرہا ہے۔ اتنا کچھ کہہ سن لینے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر باہم شیر و شکر ہو جائیں گے۔ یقین نہ آئے تو تھوڑا ذہن پر زور دیں۔ خطاب کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندوں نے جناب ایاز لطیف پلیجو سے ایک ملاقات کی اور انھوں نے ہڑتال کی کال واپس لے لی۔ کیا تو بہت اچھا کہ ان ہڑتالوں میں رکھا ہی کیا ہے، لیکن یہ بھی تو سوچیے کہ وہ دعوے، سندھ سے محبت، ماں کے بٹنے کی بات پر غم و غصہ، ایک ملاقات کی مار نکلے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ردِ عمل بھی غور طلب ہے۔جان دے دیں گے، جان لے لیں گے،سندھ ہماری ماں ہے، سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ اچھا ہے، بلکہ بہت اچھا ہے۔ دنیا خبردار رہے کہ ہمارا خون بہت گرم ہے۔ ہم تو ایک صوبہ کی تقسیم کی بات پر یوں اچھل رہے ہیں، اگر کسی نے پاکستان کو تقسیم کرنے کی بات کی تو خود ہی سوچیں، ہمارا کیا ردِ عمل ہو گا۔ ویسے آپس کی بات ہے، ہمارا کیا ردِ عمل ہو گا؟ یقینا وہی ہو گا جو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر تھا۔ ہمارا ردِ عمل بالکل وہی ہو گا، جو بلوچستان میں سب کچھ دیکھنے، سمجھنے کے بعد ہے۔ہمیں ان لوگوں سے قطعاً کوئی گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ جو فون اور ٹویٹر پر بیٹھے ہمارے جذبات سے کھیل رہے ہیں، لیکن اُن لوگوں سے تو بنتا ہے جو یہاں ہمارے آس پاس ہو کر بھی آس پاس نہیں لگ رہے۔کاش وہ اپنا آپ محسوس کروانا شروع کر دیں۔ اور یہ جو اوٹ پٹانگ باتیں اِدھر اُدھر سے اُٹھ رہی ہیں، انھیں سمجھیں، اور ان کے تدارک کا بھی سوچیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مجموعی حالات کس نہج پر ہیں؟ ہمیں کون کون سے مسائل درپیش ہیں؟کن مسائل کی طرف توجہ دی جا رہی ہے اور کون کون سے ہنوز محرومِ توجہ ہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو جمہوریت اپنی اصل شکل میں ڈھلنے کے عمل میں ہے، اسے مزید پختہ کرنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا کیا کچھ ابھی اور کرنا ہے؟ ہم سب کہ جمہوریت، جمہوریت چلا رہے تھے، اب اسے اپنے بیچ پا کر، اسے مضبوط کرنے کی فکر کیوں نہیں کرتے۔ حق تو یہ بنتا ہے کہ ہم سب عوام اور خصوصاً تمام سیاسی جماعتیں عوام کی موجودہ منتخب حکومت کا ساتھ دیں کہ وہ اس بحرانی کیفیت سے ہمیں نکال سکے۔ لیکن شاید ہم ابھی سوچنے، سمجھنے کی سکت نہیں رکھتے، اور بحیثیت قوم ہمارے تیور بھی ایسے بھلے نہیں لگ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۱۰ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment