کیا اب بھی نہیں! … نوید صادق

میرا پاکستان
…….

کیا اب بھی نہیں!
……….

ہم لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک گئے ہیں۔کراچی میں، لاہور میں، پشاور میں۔۔۔ ہمیں کہاں کہاں نہیں رُلایا گیا۔ لیکن آج ہمیں رونا نہیں، ماتم نہیں کرنا۔ آج ہم میں سے ایک بہادر اُٹھ گیا، ایک مسلمان اُٹھ گیا، ایک پاکستانی اُٹھ گیا۔ ایک سچا، سُچا پاکستانی ہمیں چھوڑ گیا۔ لیکن ہم کیوں روئیں؟ ہمیں تو فخر کرنا ہے کہ ہمارے ایک بھائی نے اِس دور میں ایک شیر کی سی زندگی گزاری،شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن۔۔۔۔ آج پورے پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ بدبختوں کو پیغام ہو کہ اُن کی رسی میرے مالک نے بظاہر دراز کر رکھی ہے، لیکن انھیں انجام سے، ایک دردناک موت سے دوچار ہونا ہے، اور وہ دن زیادہ دور نہیں اور اُس دن اُن کی موت پر آنسو بہانے والا بھی نہیں ملے گا۔ ایک بہادر چلا گیا لیکن کتنوں کے لئے مثال بن گیا۔چوہدری اسلم شہید ۔۔ کتنا جچ رہا ہے یہاں لفظ ”شہید“۔ چوہدری اسلم شہید ایک نڈر، ایک راست قدم پولیس افسر تھے۔۔لیکن ”تھے“ نہیں، ہیں۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کردیے جائیں اُن کو مردہ مت کہو، بل کہ وہ زندہ ہیں، مگر تم کو احساس نہیں۔“ شہادت سے انسان کو ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہ عالم پر ثبت ہو جاتا ہے، جسے وقت کا گرد و غبار بھی دھندلا نہیں سکتا، جس کے نتائج و ثمرات رہتی دنیا تک قائم رہتے ہیں۔چوہدری اسلم شہید زندہ ہیں بس ہمیں آج کے بعدان کی زندگی کا احساس نہیں ہو گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میری امت کو مشقت لاحق ہوگی تو میں کسی مجاہد دستے سے پیچھے نہ رہتا، اور میری دِلی خواہش ہے کہ میں راہِ خدا میں قتل کیا جاوں، پھر زندہ کیا جاوں، پھر قتل کیا جاوں، پھر زندہ کیا جاوں اور پھر قتل کیا جاوں۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کوئی شخص جو جنت میں داخل ہوجائے، یہ نہیں چاہتا کہ وہ دُنیا میں واپس جائے اور اسے زمین کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت مل جائے، البتہ شہید یہ تمنا ضرور رکھتا ہے کہ وہ دس مرتبہ دنیا میں جائے، پھر راہِ خدا میں شہید ہوجائے، کیونکہ شہادت پر ملنے والے انعامات اور نوازشیں اُس کی نظر میں ہوتے ہیں۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو، اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ، وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کو قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب لوگ حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی گردن پر تلواریں رکھے ہوئے آئیں گے جن سے خون ٹپک رہا ہوگا، یہ لوگ جنت کے دروازے پر جمع ہوجائیں گے، لوگ دریافت کریں گے کہ: یہ کون لوگ ہیں (جن کا حساب کتاب بھی نہیں ہوا، سیدھے جنت میں آگئے)؟ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ شہید ہیں جو زندہ تھے، جنھیں رزق ملتا تھا۔“ شہید کے مرتبے اور فضیلت کی بابت اب اور کیا کہا جائے کہ دوسری کوئی نیکی شہادت کے مرتبے کو نہیں چھو سکتی۔ شہادت کی تمام اقسام میں سے االلہ کے راستے میں جان دینا، اپنے وطن کی حفاظت میں اپنی جان اپنے مالک حقیقی کے سپرد کر دینا سب سے بلند درجے کا حامل ہے۔ چوہدری اسلم شہید! ملک دشمنوں کے خلاف آپ کا جذبہ ہمارے حوصلے بڑھاتا رہے گا۔ آپ کی اپنے وطن، اپنے لوگوں کے لیے قابلِ تقلید زندگی اور قابلِ رشک شہادت ہمارے لیے ایک روشن منارا ہے۔
چوہدری اسلم کی شہادت کے کچھ ہی دیر بعد تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس حملے کی نہ صرف ذمہ داری قبول کر لی بل کہ پہلی بار اپنی تنظیم کی جانب سے اس حملے کا سبب بھی بیان کر دیا۔طالبان تحریک کے مطابق چوہدری اسلم نے انھیں بہت نقصان پہنچایا تھا،وہ اُن کے پچاس سے زیادہ کارکنان کے ماورائے عدالت قتل کے ذمہ دار تھے۔ چوہدری اسلم شہید نے طالبان پر ہمیشہ کاری ضرب لگائی۔ انھیں دھمکیاں ملتی رہیں، ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے، لیکن ہر دھمکی، ہر حملے نے ان کے حوصلے مزید بلند کیے۔ گذشتہ رات بھی انھوں نے تحریکِ طالبان کے تین اہم کارکنان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا۔ اور آج صبح انھوں نے پریس کے سامنے اپنے عزائم کا اظہار بھی کیا کہ وہ جسم میں خون کے آخری قطرے تک طالبان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ اور انھوں نے اپنا عزم، اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔
طالبان سے مذاکرات کے خواہش مندوں کی آنکھیں شاید اب بھی نہیں کھلیں۔وہ ایک طرف اِس حملے کی مذمت کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ مذاکرات ضرور ہونا چاہئیں۔جناب عمران خان مذاکرات کے معاملے میں شورشرابا کرنے والوں کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آ رہے ہیں۔ خان صاحب! آپ کو کبھی اپنے لوگوں کا خیال بھی آئے گا کہ ہمیشہ ”ہمارے دشمنوں کی آشیرباد لے کرہم پر حملے کرنے والوں“ کی حمایت ہی جاری رکھیں گے۔ ایک حکیم اللہ محسود کی موت کو بنیاد بنا کر مذاکرات کا سلسلہ روک دینے کا اعلان کرنے والوں نے کتنی بار ہم سے ہمارے پیاروں کی لاشیں اٹھوائی ہیں، اس کا ایک ذرا سا حساب درکار ہے۔ اگر خان صاحب اور دیگران ٹھنڈے دل سے، سچے پاکستانی بن کر سوچیں اور حساب کتاب سامنے رکھیں تو اُن کے ارادے بھی تبدیل ہو جائیں۔ جذبات کی رَو میں بہہ جانے والے پاکستانی سیاست دانوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے میں لگے ہاتھوں اُن لوگوں کا ذکرِ خیر بھی بے جا نہیں ہو گا جو ہر اچھے برے واقعے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور ان سب کو اپنے لوگوں، اپنے وطن کے بارے میں سوچنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ آخری سانس لیتے ہوئے چوہدری اسلم شہید کی طرح ہمیں بھی یہ اطمینان ہو کہ ہم نے کوئی اچھا کام کیا ہے، کچھ ایسا کیا ہے جس کے نتائج و ثمرات سے ہماری آئندہ نسلیں مستفیض ہوتی رہیں گی۔چوہدری صاحب! پوری قوم کی طرف سے آپ کو سلام!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۱۲ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment