ریلیاں، دھرنے اور دہشت گردی … نوید صادق

میرا پاکستان
…….

ریلیاں، دھرنے اور دہشت گردی
……….

لگ بھگ یہی دن تھے، سرد ہوائیں چل رہی تھیں، ہم جیسے تیسے گزارا کر رہے تھے کہ سات سمندر پار سے ایک شخص آیا، نعرہ لگا: ”وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ختم کر دیا جائے، تمام اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کو تحلیل کر دیا جائے، فوج اور عدلیہ کی باہمی مشاورت کے بعد ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے، عبوری حکومت آئین کے آرٹیکل نمبر62،63اور 218 کے تحت انتخابات سے قبل اصلاحات کرے“، اور پھر لاکھوں افراد کو جمع کرنے اور اسلام آباد کو تحریر سکوائر بنا دینے کا دعویٰ کیا گیا ۔ لاکھوں تو نہیں لیکن ہزاروں چاہنے والے اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے اور دھرنا پروگرام شروع ہو گیا۔ یہ مطالبات سمجھ نہیں آئے کہ کسی بھی رُخ سے مطالبات نہیں لگتے تھے، ہمیں تو یہ مطالبات سے زیادہ حکم نامے محسوس ہوئے۔ خیر یہ دھرنا کچھ دن چلا، لوگ اپنے بچوں سمیت سردی میں ٹھٹھرتے رہے،علامہ صاحب تو اپنے کنٹینر میں تھے، انھیں کیا پرواہ، اور پھر تمام سیاسی جماعتوں کو احساس ہوا کہ یہ دھرنا، یہ مطالبات کوئی راہ چلتے سامنے نہیں آ گئے، ایک سوچی سمجھی سکیم کا نتیجہ ہیں۔ بس پھر کیا تھا سب نے مل کر آواز لگائی کہ کچھ بھی ہو، جمہوریت کے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ کنٹینر میں مذاکرات ہوئے، ایک معاہدہ ہوا، اور لوگ واپس اپنے اپنے گھر، اسلام آباد فتح کرنے کے نعرے لگانے والے نزلہ ،کھانسی سمیٹے واپس آ گئے۔ اسلام آباد تحریر سکوائر نہیں بن سکا، حکومت گرائی نہیں جا سکی، اور علامہ صاحب واپس اپنے وطن چلے گئے۔
پھر پاکستان میں انتخابات ہوئے، اقتدار کی منتقلی ہوئی، دوبارہ موسمِ سرما اپنے عروج پر پہنچا تو ایک دم سات سمندر پار سے اعلان ہوا کہ 30 دسمبر کو لاہور میں حکومتِ وقت کے خلاف ریلی نکالی جائے گی۔لب و لہجہ وہی پچھلے سال والا: ”حکومت کرپٹ ہے، ملک میں جمہوریت نہیں، آمریت کا دور دورہ ہے، ملک پر ایک خاندان کا قبضہ ہے، الیکشن کمیشن کا وجود بذاتِ خود دھاندلی پر مبنی ہے“۔ لیکن اب گفتگو آمنے سامنے کی نہیں تھی، بلکہ ویڈیو لنک کے ذریعے چاہنے والوں سے بات چیت ہوئی۔ بات تو ہے نا کہ محض ایک شورشرابا برپا کرنے کے لیے اتنی دور آنے کی کیا ضرورت ہے، جان جوکھوں کا کام ہے، زندگی کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے، سو ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھایا گیا۔
بات کچھ یوں ہے کہ ایسی آوازیں جو کچھ عرصہ سے وقتاً فوقتاً بلند ہوتی رہتی ہیں، ہمارے عوام کو صدقِ دل سے سوچنا چاہیے کہ ان آوازوں میں کتنی صداقت ہے؟ کتنا خلوص ہے؟ آپ کو اگر ہم پاکستانی اتنے ہی عزیز ہیں تو آئیں ہمارے ساتھ رہیں، ہمارے دکھ سکھ براہِ راست دیکھیں، یہ سوشل میڈیا یہ میڈیا پر اونچ نیچ کی خبریں، بلند بانگ دعوے کچھ ایسے بھلے نہیں کہ ان کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے والے پہلے کم تھے کہ اب علامہ صاحب بھی انھی ہتھ کنڈوں پر اتر آئے۔ جناب الطاف حسین کی فون کال پر عوام سے خطاب کی ریت اب عام ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ایک غیر ملکی دوست نے ایک دفعہ ایسے ہی ایک خطاب پر ہم سے پوچھا کہ یہ کون سا طریقہ ہے؟ اور تم پاکستانی بھی عجیب ہو کہ ہاتھ پر ہاتھ باندھے انتہائی ادب سے یہ سب سن رہے ہو۔اب علامہ صاحب کے ہاتھ بھی احتجاج کا ایک کم خرچ بالانشین نسخہ لگ گیا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اب یہ بازار سجتا رہے گا۔ اس سب کے پیچھے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں، یہ کوئی ایسی ادق بات نہیں کہ سمجھ نہ آئے، پاکستان میں پنپتی جمہوریت ان لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ دوسری طرف جناب عمران خان احتجاج پر احتجاج کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دھرنے سے اٹھتے ہیں، دوسرے کا اعلان کر ڈالتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب خان صاحب اور خٹک صاحب اپنے ہی صوبے میں اپنی ہی حکومت کے خلاف مظاہرہ کریں گے، کیا دل کش منظر ہو گا۔ادھر مولانا فضل الرحمن نے بھی اعلان کر ڈالا ہے کہ وہ خیبرپختون خواہ میں دھرنا دینے جا رہے ہیں۔کوئی خدا کا بندہ ان بھلے لوگوں سے یہ تو پوچھے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ ان کے ارادے کیا ہیں؟ وہ جمہوریت جو ہمیں بڑی منتوں مرادوں کے بعد ملی ہے، کیا یہ جمہوریت انھیں پھلتی پھولتی اچھی نہیں لگتی جو وہ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ فوج والے بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت کے تسلسل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں لیکن جمہوریت کے بڑے بڑے دعوے دار اپنے افعال سے اس کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کی سرگرمیاں ایک بار پھر زور پکڑتی چلی جا رہی ہیں۔ مذاکرات کے حامی ابھی تک مذاکرات، مذاکرات چِلا رہے ہیں۔ طالبان بار بار کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کو بھول جاؤ۔ سیکورٹی فورسز پر حملوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ ہمارے نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرال راحیل شریف نے کہا ہے کہ ہر کاروائی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اس کے بعد پاک فوج کے جوانوں نے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کا ایک ہلکا پھلکا جواب دیا تو پورے ملک میں شور اٹھا کہ مذاکرات کیا ہوئے، یہ تو پھر جنگ شروع ہو گئی ہے۔ عجیب بات ہے، ہمارے جوانوں، ہمارے عوام پر حملے ہوں اور ہمارے فوجی بھائی انھیں جواب بھی نہ دیں۔ہم تو پہلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے کہ مذاکرات وہاں ہوتے ہیں جہاں فریقین کے درمیان کم از کم کسی ایک آدھ بات پر اتفاق کا امکان ہو۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ طالبان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ہی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔پاک فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مٹھی بھر شرپسند ہمارے قابو نہیں آرہے۔ آج نہیں تو کل ہمیں اپنی اپنی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر دہشت گردوں سے متعلقہ معاملات پاک فوج کے حوالے کرنا ہوں گے کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اور یقین کیجیے، اگر یہ سیاست، سیاست کا کھیل تھوڑے دنوں کے لیے بند ہو جائے تو طالبان خواہ ان کی پشت پناہی کوئی بھی کر رہا ہو، ہماری فوج کے لیے چند دنوں سے زیادہ کا کام نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

یکم جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment